لسانی اور نسلی تعصب سے ہوشیار!

شعیب آرین

کچھ ناراض بلوچوں نے ریاست کو جگانے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا، جسے ریاست سمیت بہت سے لوگوں نے غلط سمجھا اور عدم تشدد کا راستہ اپنانے کا مشورہ دیا۔وقت نے ثابت کیا کہ یہ مشورہ کافی حد تک درست تھا۔دوسری طرف پشتون تحفظ موومنٹ ہے، جو شروع دن سے عدم تشدد کے فلسفے پر کاربند ہیں اور احتجاج اور جلسے سے اپنی بات منوانے کے قائل۔مگر ریاستی اداروں سمیت بہت سے لوگوں کو پی ٹی ایم کا یہ عمل بھی ناگوار گزر رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کچھ ریاستی ادارے پی ٹی ایم سے نالاں کیوں ہیں؟

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی ایم لوگوں کو زبان دے رہی ہے، وہ لوگوں کی آواز بن رہی ہے، منظور پشتین اور علی وزیر وہ باتیں کر رہے ہیں جو لوگوں کے دِلوں میں تھیں لیکن وہ بوجوہ انہیں کبھی اپنی زبانوں پر نہ لاسکے تھے۔عام لوگ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی ایم ان کی بات کر ہی ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات کی وجہ سے ریاستی پالیسوں پہ بہت سارے سوالات اُٹھ گئے ہیں۔لوگ پوچھنے لگے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا تھا؟ کون ذمہ دار تھا اور کیا ملزم کو سزا بھی ہوئی تھی؟

پی ٹی ایم کی آواز کو دبانے اور عام لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کو گڈ مڈ کرنے کے لیے ریاستی اداروں نے وہی 70 سال پرانے اوچھے ہتھکنڈے شروع کر دیے ہیں۔جن میں دھونس، دباؤ، پابندی اور وطن دشمنی کے الزامات شامل ہیں۔ غدار، ایجنٹ اور انجینئرڈ تحریک جسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

روایتی میڈیا نے اپنے کان بند کر لیے ہیں اور وہ گونگا بن گیا ہے۔فاٹا کو منی یورپ بنا کر پیش کرنے والے پشتونوں کی آواز دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

میں نے فاٹا نہیں دیکھا اور نہ ہی بہت سے اینکر صاحبان نے جو دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جیت کے بلند بانگ دعوے کرتے پھرتے ہیں۔

فاٹا کے اصلی ترجمان میں، آپ یا کسی ادارے کا سربراہ نہیں، بلکہ وہاں رہنے والے لوگ ہیں اور ان کی بات سننا ریاست کا فرض ہے۔

’را‘ اور ’این ڈی ایس‘ کے ایجنٹ ہونے کی تہمتیں ایسے لگائی جارہی ہیں گویا ان دونوں خفیہ ایجنسیوں کو پشتونوں کے بنیادی حقوق کی فکرکھائے جاتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس ( پی ٹی ایم کی تحریک) سے دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کو ثبوتاژ نہیں کر نے دیں گے۔مطلب یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو صرف سوال اُٹھانے سے ہی ثبوتاژ ہو جائے گی؟ بھائی کچھ تو خیال کرو۔

پشتون تحفظ مومنٹ میڈیا بلیک اوٹ کے بعد سوشل میڈیا پر بہت متحرک ہے جو عوام تک اپنی بات پہنچانے اور تائید حاصل کرنے کا اچھا راستہ ہے۔

اس تحریک کو نہ صرف پشتون بلکہ نان پشتون حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو خوش آئند بات ہے۔

اب جب ریاست کو منظور نہیں کہ لوگ اس تحریک کا تحریری اور عملی طور پر ساتھ دیں تو ان کے درمیان خلا پیدا کرنے کے لیے بہت سے حربے استعمال ہو رہے ہیں جس کے لیے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو استعمال کیا جارہا ہے۔مختلف اینکر صاحبان کی طرف سے پشتون تحفظ مومنت اور منظور پشتون کی کردار کشی اسی عمل کا حصہ ہے۔

سوشل میڈیا پہ پشتونوں اور دوسری قومیتوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے دو دھاری حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ مثلاً ایک ’پشتون‘ پنجابیوں کو گالیاں بک رہا ہے اور دوسری طرف کوئی ’پنجابی‘ پشتونوں کے بارے میں گندے اور دل آزاری کا ناعث بننے والے لطیفے شئیر کر رہا ہے۔

آپ کو بتانے والی بات یہ ہے کہ ایسے دونوں اکاؤنٹ فیک (جعلی) ہوتے ہیں۔

یہ سلسلہ کسی ایک ( اور بہت سے) جعلی اکاؤنٹ سے (بیک وقت) شروع ہوتا ہے اور پھر فریقین کے سادہ لوگ اسے بلا سوچے سمجھے لائک اور شئیر کرتے جاتے ہیں ان میں سے کچھ جذبات میں آکر کمنٹ داغ دیتے ہیں اور پھر گالم گلوچ کا نا ختم ہونے والا تکلیف دہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

بلوچستان میں پنجاب سے گئے مزدوروں کو مختلف اوقات میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔اس بات میں دو رائے نہیں عام پنجابی یا بلوچ کا دہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن ایسے واقعات کو دونوں قومیتوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا۔اچھے خاصے سمجھدار، پڑھے لکھے اور قابل احترام لوگ بھی ان بحثوں میں الجھ گئے اور استعمار کے ہاتھوں استعمال ہو گئے۔

نسلی، مذہبی، لسانی اور دوسری قوموں کی تضحیک پر مبنی پوسٹوں کو نظر انداز کردینا بہتر اور رپورٹ کرنا سب سے اچھا اقدام ہے کہ ان کا مقصد آپسی بھائی چارے کو نفرت میں بدلنا ہے۔

پشتون تحفظ مومنٹ کے ارکان کو بہت سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے۔انہیں چاہیے کہ الفاظ کے چناؤ میں بہت احتیاط کریں اور دلیل سے اپنی بات کو آگے رکھیں جیسا کہ تحریک کے رہنما کرتے آرہے ہیں۔

تحریکیں ایک دن میں کامیاب نہیں ہوتیں، نہ ہی مطالبات گھنٹوں میں مانے جاتے ہیں۔یہ حقوق کی جنگ ہے، جس کے لیے اتحاد، اتفاق اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔پشتون تحفظ مومنٹ نے اپنے پُر امن جلسوں میں اپنی آواز اٹھائی ہے جو لوگ آج ان کے ساتھ نہیں وہ کل شانہ بہ شانہ ہوں گے اور ریاست جو کچھ آج سننا نہیں چاہتی، پرامن جدو جہد کل اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔

یہ صبر اور حوصلے کی تحریک ہے، جذبات میں آکر تحریری، زبانی، یا کسی اور طریقے سے ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جو بداخلاقی کے دائرے میں آتا ہو۔ پی ٹی ایم پر خیبر پختونخوا ہی نہیں دوسرے صوبوں کے لوگوں کی نظریں بھی جمی ہیں اس لیے صبر اور حوصلے سے کام لیں اور ثابت قدم رہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ صرف پشتونوں کی تحریک نہیں بلکہ یہ ملک کے پسے ہوئے طبقوں اور قومیتوں کی آواز ہے۔ پنجابی، بلوچ، سندھی، پشتون، سرائیکی، ہزاروی اور دیگر قومیتیں تفرقہ پھیلانے والے عناصر سے ہوشیار رہیں۔