تم گھر سے باہر نکلتی ہی کیوں ہو؟

 مہنازاختر

لڑکیو!  مشینی جانگیوں اور بریزروں کا استعمال شروع کردو! کہ جیسے کوئی تمہاری چھاتی یا کولہوں پر ہاتھ پھیرے،  اسے ہائی وولٹیج کا کرنٹ لگے اور اگر ایسی مصنوعات بازار میں دستیاب نہیں یا تمہاری دسترس میں نہیں تو پھر اپنی چھاتیاں کٹوالو! کولہے سپاٹ کروالو!  اور شرمگاہیں بھی سلوا لو!  کیونکہ تمہارا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ تم پاکستان میں پیدا ہوئی،  اور پیدا ہوئی بھی تو تمہارے ماں باپ نے شریعت کے نام پر محض نو دس سال کی عمر میں تمہیں پردہ پوش کرکے گھروں میں معتکف کیوں نہ کردیا؟

اور یہ تو بتاؤ تم گھر سے باہر نکلتی ہی کیوں ہو؟  یہ سب پڑھتے ہوئے عجیب اور بے ہودہ لگ رہا ہوگا۔ یقین مانیے کہ لکھتے ہوئے مجھے بھی برا لگ رہا ہے مگر بہ حیثیت خاتون کل سے میں ایک عجیب کرب کی کیفیت میں مبتلا ہوں۔ کیونکہ ہم اس قدر خوف زدہ ہوچکے ہیں کہ اب راہ چلتا بھلا مانس بھی درندہ محسوس ہوتا ہے۔ کراچی سے مروہ کی جلی ہوئی لاش ملی ، میں چپ رہی کیونکہ کم از کم میں ان کچلی ہوئی کلیوں کا ماتم کرکر کے تھک گئی تھی۔

میں اب لڑکیوں یا ان کے والدین کو مشورہ نہیں دوں گی کہ اپنی لڑکیوں کو باشعور اور بااختیار بنائیں یا انہیں اپنے دفاع کی تربیت دلائیں۔ اب اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ کل لاہور گجرپورہ روڈ پر ایک خاتون کار ڈرائیور کو اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اور کل ہی سائیکلسٹ ثمر خان نے ایک ویڈیو اپلوڈ کی، اور بتایا کے وہ اسلام آباد میں سائیکلنگ کررہی تھیں،  اسی دوران بائیک پر سوار ایک شخص نے قریب آکر ان کے کولہوں کو دبوچنا شروع کردیا۔ یہ دونوں خواتین یقیناً باہمت اور بااختیار ہوں گی۔ جب ہی سڑک پر آزادی سے نقل و حرکت کا رسک لے رہی تھیں۔ پر ہم نے دیکھ لیا کہ نتیجہ کیا نکلا۔ ثمر خان ایک باہمت لڑکی ہے،  یہ حملہ غیر متوقع تھا اس لیئے وہ چاہ کر بھی اسے سبق نہ سکھا پائی کیونکہ وہ خود سائیکل پر جب کہ وہ ذہنی مریض بائیک پر تھا لیکن ثمرخان نے یہ ضرور کہا کہ پاکستان کی سڑکیں خواتین کے لیئے بالکل محفوظ نہیں ہیں۔

ثمر خان آپ تو پھر بھی چست کپڑوں میں ملبوس سائیکل پر سوار تھیں۔ یہاں تو عبایا پہن کر یونیورسٹی، کالج، آفس، ملازمت پر یا مارکیٹ جانے والی لڑکی محفوظ نہیں کسی اکیلی سڑک یا موڑ پر کوئی مرد نما حیوان اپنا حق سمجھتا ہے کہ آپ کے سینے یا کولہوں پر اپنے وحشی ہاتھوں کی مدد سے جھپٹے اور اپنی آگ ٹھنڈی کرکے اپنی راہ لے۔ آپ اپنا دکھڑا اس وقت کیوں سنا رہیں ہیں جب کہ ابھی دو چار دن ہوئے ہیں ایک چھ سال کی بچی کراچی میں ریپ کرکے قتل کردی گئی، اور کل ہی لاہور میں ایک خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے دو وحشیوں نے درندگی کا نشانہ بنایا۔

سی سی پی او عمر شیخ نے تو پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ زیادتی کا شکار خاتون کو ضرورت کیا تھی رات کے وقت بچوں کو ساتھ لے کر سفر کرنے کی، ساری غلطی خاتون کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں لوگ والدین کو مشورہ دیتے تھے کہ اگر اپنے لڑکے کو زندہ دیکھنا چاہتے ہو،  تعلیم و ترقی حاصل کرتے دیکھنا چاہتے ہو تو اسے بیرون ملک بھجوا دو۔ آج میں کہتی ہوں کہ اگر آپ اپنی بیٹیوں کو یوں سرراہ لٹتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے تو انہیں ملک سے باہر بھجوادیں۔

ثمر خان یا تمام خواتین بہ حیثیت مجموعی کس سے شکوہ کررہی ہیں؟ اس معاشرے سے ، جس میں محافظِ شہر زیادتی کا شکار ہونیوالی خاتون کو ہی غلطی پر قرار دے رہا ہے۔ جو ضرورت سے گھر سے باہر نکلی تھی۔ اپنی کار پر بچوں کے ساتھ۔ تو پھر آپ تو سائیکل پر ہوا خوری کرنے کا گناہ کربیٹھی ہیں۔ کیا پاکستان کو کینیڈا یا جرمنی سمجھ رکھا ہے؟ “اب رات کو آوارہ کتوں کی طرح مست پھرنے والے نر بچوں کا دل ان بااختیار خواتین کو دیکھ کر نہ مچلے تو کیا ہو! “

یقین مانیں!  کہ میں اور دیگر تمام خواتین اور بچیاں ایک ایسے معاشرے میں رہ رہی ہیں جہاں بڑی تعداد میں ریپسٹ اور پوٹینشل ریپسٹ گھات لگائے شکار کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں آخر ان وحشیانہ جرائم کا خاتمہ کیسے کیا جائے۔ کوئی بتائے گا کہ یہ سب دین سے دوری کا نتیجہ ہے،  شریعت اور شرعی نظام نافذ کردو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ کوئی کہے گا کہ اس سب کی وجہ معاشرے کی جنسی گھٹن اور معقول جنسی آزادی کا میسر نہ ہونا ہے۔ میں کہتی ہوں معاشرہ بہ حیثیت مجموعی پوٹینشل ریپسٹس پر نظر رکھے،  ریپ اور ریپسٹس دونوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔ 

:پوٹینشل ریپسٹس کی مختلف اقسام

اس طرح کی رائے دینے والا ہر شخص پوٹینشل ریپسٹ ہے جسے کپڑے میں لپٹا نسوانی گوشت کا لوتھڑا زیادتی کے واقعات کی جائز وجہ لگتا ہے۔ اس کی نظر میں زیادتی کرنے والا ہمیشہ مظلوم ہوتا ہے۔

یا ایسے تمام مرد جو کہتے ہیں کہ ” وہ رات ساڑھے بارہ بجے گھر سے نکلیں ہی کیوں؟”