مادری زبان یا اردو زبان؟

عاطف توقیر

گاڑی کی رفتار کوئی ایک سو اسی کلومیٹر فی گھنٹہ تو ہو گی، جب میں نے موٹر وے پر دائیں جانب وہ نیلے رنگ کا بورڈ دیکھا، جس پر تحریر تھا فرائی اشٹاٹ بائرن، یعنی فری اسٹیٹ آف باویریا۔ جرمن کے جنوب میں اس ریاست کی شہرت کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک تو اس جرمن ریاست کی مشہور زمانہ ’بی ایم ڈبلیو‘ (بائریشے موٹرن ویرکے)، جو دنیا بھر میں اپنی ساخت اور مضبوطی کے ساتھ ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کی وجہ سے معروف ہے۔

دوسرا اس ریاست کا دارالحکومت میونخ جو بین الاقوامی سکیورٹی کانفرنس سمیت ہر سال متعدد اہم بین الاقوامی کانفرنسوں اور نمائشوں کی میزبانی کرتا ہے۔

تیسرا اکتوبر فیسٹیول، جو دنیا کا سب سے بڑا بیئر فیسٹیول ہے، جس میں ہر سال کئی لاکھ افراد صرف بیئر پینے اس ریاست کے دارالحکومت کا رخ کرتے ہیں اور یہاں ایک رات کا قیام کئی کئی سو یورو تک کا ہوتا ہے۔ ہوٹل میں کمرہ لینے کے لیے کئی کئی ماہ پہلے بکنگ کرائی جاتی ہے اور وہاں رہنے والے بھی اس فیسٹیول کے دور میں اپنے اپنے گھروں کے اضافی کمرے کرایے پر چڑھا کا مال بنا لیتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں ہیں، جو اس ریاست کو ایک جداگانہ حیثیت دیتی ہیں اور ان میں سے ایک اس علاقے کی جرمن زبان کا مخصوص لہجہ ہے۔ گو کہ یہاں جرمن زبان ہی بولی جاتی ہے، مگر بائرن میں بولی جانے والی جرمن اپنے مخصوص لہجے کی وجہ سے بآسانی پہچانی جا سکتی ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=TFyPdqKb1hc&t=10s

مثال کچھ یوں ہے کہ اگر عام جرمن میں کوئی شخص کہے کہ اس نے صبح ناشتہ کیا ہے، تو وہ کہے گا۔ اش ہابے ہوئٹے فررُشٹک گیگیسن، مگرباویریا کی زبان یا لہجے میں کہا جائے گا۔ ای ہوب فریا زیمل گیسن۔ لکھتے ہوئے دونوں علاقوں کے لوگ تاہم ایک سا لکھتے ہیں، یعنی لکھنے میں فرق چند ایک علاقائی الفاظ سے زیادہ نہیں ہوتا، جب کہ دونوں زبانوں کی گرامر بھی ایک سی ہے۔
تاہم اہم بات یہ ہے کہ اس ریاست میں اپنے لہجے کے تحفظ کے لیے تمام تر اقدامات کیے جاتے ہیں، جس میں اس ریاست کی ایک طویل تاریخ سے لے کر ثقافت کے دیگر رنگوں تک، ہر ایک طرح سے اپنے علاقے کی تہذیب کی بقا کے لیے کوشش کی جا رہی ہے، جو اب تک کامیاب بھی ہے۔ یعنی جرمنی کا حصہ ہونے کے باوجود ایک تو اس ریاست کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں خصوصی حیثیت اور زیادہ خودمختاری حاصل ہے، دوسرا یہاں کے ادارے اپنی زبان اور لہجے کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

گزشتہ روز جامعہ سندھ کی جانب سے ایک دفتری نوٹیفیکشن دیکھنے کو ملا، جس میں تحریر کیا گیا تھا کہ جامعہ میں موجود تمام تر سائن بورڈز دو زبانوں میں تحریر ہوں گے، ایک تو سندھی اور دوسری انگریزی۔

بہت سے سندھی دوست اسے ایک عمدہ پیش رفت قرار دے رہے تھے اور دوسری جانب اردو بولنے والے اس بات کو تعصب قرار دیتے ہوئے اردو زبان (جو قومی زبان ہے) کے ساتھ ایک ظلم بتا رہے تھے۔ ان دونوں طرح کے دوستوں کی بابت چند گزارشات نہایت ضروری ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سندھی زبان صدیوں پرانی زبان ہے۔ کسی علاقے کی تہذیب کا اس علاقے کی زبان پر بے انتہا انحصار ہوتا ہے بلکہ یوں سمجھیے کہ کسی خطے کی ثقافت، تہذیب، تمدن اور روایات کو اگر کسی شے نے باندھ کر رکھا ہوتا ہے، تو وہ اس علاقے کی زبان ہے۔

ہمارا دیس جس خطے پر واقع ہے، وہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کی آماج گاہ رہا ہے۔ یہاں موئن جو ڈارو ہو کہ ہڑپہ، ٹیکسلا ہو، یہاں بلوچستان ہو کہ خیبرپختونخوا، کشمیر ہو کہ سرائیکی علاقہ، جس جس زمین کو کھودیں گے، وہاں ہزاروں برس پرانی تہذیبیں ہماری منتظر ہوں گی۔ بدقسمتی سے ہمیں پڑھایا یہ جاتا ہے کہ جیسے ہم بہ طور تہذیب صرف ستر سال پرانے ہیں، یا ہماری تہذیب اس وقت پیدا ہوئی، جب محمد بن قاسم نے دیبل فتح کر لیا، حقیقت اس سے مختلف بالکل برعکس ہے۔ ہماری تہذیب سرزمین حجاز کی تہذیب سے بہت پرانی ہے۔

اس لیے سندھ کے لوگوں کا یہ بنیادی حق اور پیدائشی فرض ہے کہ وہ اپنی زمین کی بولی کو تحفظ فراہم کریں۔ ایک سادہ سی بات یہ ہے کہ اگر میں پنجابی ہوں اور میں ہی پنجابی نہیں بولوں گا، تو پنجابی کیسے بچے گی؟ یا ایک سندھی اپنی زبان نہیں بولے گا یا اپنے بچوں کو نہیں سکھائے گا، تو سندھی زبان کیسے زندہ رہے گی؟ یہی معاملہ بلوچی، پشتو اور دیگر زبانوں کے ساتھ بھی ہے۔
لیکن اس معاملے میں جذباتی نعروں کی بجائے، علمی عینک پہننے کی ضرورت ہے۔

پہلی بات کہ اردو زبان دستورِ پاکستان کی بنیاد پر ملک میں موجود کسی بھی قوم کی زبان نہ ہونے کے باوجود ’پاکستانی قوم‘ کے درمیان رابطے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ ہندوستان میں کوئی قومی زبان نہیں اور شمالی ہندوستان کے لوگوں کو جنوبی ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ بات چیت میں کبھی انگریزی کا سہارا لینا پڑتا ہے اور کبھی ٹوٹے پھوٹے مختلف زبانوں کے آمیزے کا۔
پاکستان میں کراچی کا رہنے والا اگر چترال جائے تو بھی اسے کسی ہوٹل پر روٹی باآسانی کھانے کو مل سکتی ہے بغیر ہاتھ کے اشارے سے اپنی بھوک کی اطلاع دیے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جامعہ میں سائن بورڈ تبدیل کرنے سے زبان بچ سکتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی نعرے سے زیادہ کچھ نہیں اور زبان کو بہ طور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے اور اس کے ذریعے جذبات ابھار کر سندھ کے لوگوں کے ووٹ ہتھیانے کے علاوہ اس کی کوئی دوسری وجہ بھی نہیں ۔

سندھی یا کسی بھی زبان کے تحفظ کے لیے دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلی بات اس زبان میں علوم بہ شمول جدید علوم موجود ہوں اور دوسری بات اس زبان میں کسی شخص کو روزگار دینے کی اہلیت ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جہاں بہت سی دیگر چیزیں مسائل اور ابہام کا شکار ہیں اور جہاں ثقافت پچھلے ستر برسوں میں کسی بھی حکومت اور کسی بھی آمریت کی کسی بھی ترجیح میں شامل نہیں رہی، وہاں کسی بھی مقامی زبان میں نہ کوئی علم موجود ہے، نہ جدید سائنسی علوم کے تراجم ہو رہے ہیں، نہ دنیا بھر کے ادبی کو ترجمہ کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان زبانوں سے کسی شخص کو روزگار مل سکتا ہے۔

کیا آپ میں سے کوئی اپنے بچے کو فقط سرائیکی سکھا کر اس کی زندگی برباد کرنا چاہے گا؟ اگر کوئی بچہ صرف بلوچی زبان جانتا ہو، تو وہ ریاضی، سائنس، جدید تاریخ، نفسیات یا دیگر علوم تک رسائی کیسے حاصل کرے گا؟

سندھی میں کون سی فلکیاتی کی کتب ہماری منتظر ہیں؟ اور پشتو میں کتنا بین الاقوامی ادب ترجمہ کیا گیا ہے؟ یا صرف پنجابی بولنے پر کون سی اعلیٰ ملازمت ہماری منتظر ہوتی ہے؟ گو کہ اردو قومی زبان ہے، مگر علم کے راستے پر چند ہی قدم چلنے کے بعد اس کے پاؤں بھی لڑکھڑانے لگتے ہیں۔

مثال کے طور پر میں پنجاب کے علاقے جہلم میں پیدا ہوا۔ پنجابی (پوٹھوہاری) میری مادری زبان تھی۔ یہ بات سمجھنے کی شدید ضرورت ہے کہ مادری زبان کوئی بھی انسان سب سے زیادہ وقت لگا کر سیکھتا ہے۔ یعنی ماں کے پیٹ سے وہ یہ زبان سننا شروع کرتا ہے اور کوئی چار پانچ برس کی عمر میں اس قابل ہوتا ہے کہ اس زبان میں پوری تفصیل کے ساتھ کوئی بات کہہ سکے۔
سو میں نے پوٹھوہای زبان سیکھی اور جب چار برس کا ہوا اور اسکول پہنچا، تو ایک نئی زبان میری منتظر تھی، کیوں کہ میری مادری زبان میں علم موجود نہیں تھا۔ میں نے اس نئی زبان یعنی اردو کو سیکھنا شروع کیا اور جب دسویں جماعت میں پہنچا اور اس سے آگے کی تعلیم سائنس میں حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، تو میرے ہاتھ میں انگریزی زبان میں ریاضی کی کتاب تھما دی گئی، کچھ اور آگے گیا، تو طبیعات اور شماریات بھی صرف انگریزی میں انتظار کر رہے تھے۔ وجہ یہ کہ اردو زبان میں موجود علم بھی فقط یہیں تک تھا۔

اب آپ خود بتائیے کسی بچے کے ساتھ یہ ظلم نہیں تو کیا ہے۔ کیا یہ میرا یہ حق نہیں تھا کہ جو زبان (مادری زبان) میں نے اتنا طویل عرصہ لگا کر سیکھی تھی، مجھے علم اسی زبان میں ملتا؟ اور اگر ایسا نہیں، تو کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ مجھے پہلے دن ہی سے انگریزی زبان سکھا دی جاتی، تاکہ مجھے بعد میں بے حد پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور میری رسائی جدید علوم تک ہوتی؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ سندھ کی جامعہ میں سائن بورڈز کو صرف سندھی اور انگریزی میں رکھنے اور اردو کو مکمل طور پر فراموش کر دینے کی کوئی بھی وجہ سیاسی کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے؟ یعنی اشارہ یہ دینا ہے کہ اردو سے سندھی کو خطرہ ہے۔ حالاں کہ سچی بات یہ ہے کہ سندھی زبان کو اس وقت سندھی ہی سے خطرہ ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی، جس کا مرکز سندھ ہے، پچھلے چالیس سالوں سے ایسا ایک قدم بھی نہیں اٹھا پائی، جو حقیقی معنوں میں سندھی زبان کے تحفظ کے لیے ہو۔ ان سے پوچھیے کہ اپنے حکومتی ادوار میں اس جماعت نے کتنی کتب کے سندھی زبان میں تراجم کروائے یا اس زبان کے تحفظ کے لیے کتنا سرمایہ خرچ کیا؟
دوسری جانب کراچی اور حیدرآباد میں موجود مہاجر برادری کے افراد جو اس وقت اردو اردو کرتے نظر آ رہے ہیں، ان کی جماعت ایم کیو ایم متعدد حکومتوں کا حصہ رہی ہے۔ اس کی جانب سے اردو زبان کی ترقی اور جدید علوم کے اس زبان میں منتقلی کے کام کے ضمن میں کیا کچھ کیا گیا ہے؟ کتنی کتب کے تراجم کے لیے انہوں نے ماہرین سے خدمات لی ہیں؟ اور آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ جامعہ سندھ میں سندھی اور انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی سائن بورڈز پر لکھا جائے اور اسی طرح جامعہ کراچی کی انتظامیہ یہاں بھی اردو اور انگریزی کے سائن بورڈز میں سندھی زبان کا اضافہ بھی کر دے؟

معاملہ صرف یہ ہے کہ انتخابات سے قبل لسانی بنیادوں پر زبان جیسے سنجیدہ اور حساس معاملے کو استعمال کرنا صرف اور صرف اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا، اصل میں زبان کی خدمت کے کسی بھی ضمن میں نہیں آتا بلکہ اس کا مقصد لسانی تقسیم کو فروغ دینا اور غیرضروری کشیدگی پیدا کرنا ہے۔ سندھیوں کو چاہیے کہ اس انداز کے اوچھے اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے، سندھی زبان کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالیں اور اردو بولنے والوں کو چاہیے کہ وہ ایسے ہتھکنڈوں سے مرعوب ہونے کی بجائے اردو کی تعمیر اور ترقی کے لیے اقدامات کے لیے کھڑے ہوں۔ نہ اردو کو سندھی سے خطرہ ہے اور نہ سندھی کو اردو سے، بالکل ان دونوں زبانوں کو اس رویے سے خطرہ ہے، جو ان زبانوں کو علم سے دور کرنے اور صرف اور صرف سیاسی فوائد کے لیے استعمال کرنے سے عبارت ہے۔

ایک شعر ذہن میں گونج رہا ہے، شاعر کا نام یاد نہیں
زباں کسی کی بھی ہو، محترم ہے سب کے لیے
کہ ماں کی کی بھی ہو، محترم ہے سب کے لیے

جرمن صوبے باویریا کی ایک اور خاص بات یہ ہے، یہاں کسی مقامی شخص سے جب بھی آپ جرمنی کے کسی بھی علاقے کا ذکر کریں، وہ کہے گا، ہاں وہ علاقہ بھی بس ٹھیک ہے، مگر ہمارے فلاں علاقے جیسا نہیں اور اس پر جرمنی کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد مسکرا کر کہتے ہیں، ہاں یہ بات تو ہے۔ بالکل ویسے ہی، جیسے جب کوئی کہتا ہے، ’’لہور لہور ہے‘ تو ہم بالکل برا نہیں مانتے۔ بھرپور معاشرہ اختلاف اور فرق پر لڑنے اور نفرت کا اظہار کرنے نہیں بالکل اختلاف کو عزت دینے اور تنوع سمجھنے سے عبارت ہے۔