“محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے”، ترجمانِ افواج پاکستان

مہناز اختر


 ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیے پر محیط ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سننے کے دوران کئی سوالات  ذہن میں آتے رہے کہ فلاں جملے یا بیان پر جرح  ضرور ہونی چاہیے۔ خیر اخیر کے چند منٹوں میں صحافیوں کو زبان کھولنے اور سوال کرنے کی اجازت ملی لیکن سینئیر صحافی حامد میر کے سوال پر ترجمانِ افواجِ پاکستان نے یہ کہہ کر سب کی بولتی بند کروا دی کہ ’’جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں، جنگ اور محبت میں سب کچھ  جائز ہے، جنگ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔‘‘

  اب جب کہ ظلِ سبحانی نے کہہ دیا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے تو سوال کی گنجائش باقی کہاں رہتی ہے۔ اس جواب کے بعد مجھے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا مطلب اچھی طرح سے سمجھ   میں آگیا کہ  یہی وہ  اصول ہے جسے جنگل کا قانون اور کبھی کبھار آمریت کہا جاتا ہے۔ ترجمانِ افواجِ پاکستان نے پی ٹی ایم کے سرکردہ رہنماؤں اور حامیان سے  سوال کیا کہ ’’تب یہ لوگ کہاں تھے جب قبائلی علاقوں میں لوگوں کو قتل کیا جارہا تھا؟‘‘

سوال اچھا ہے پی ٹی ایم کو اس کا جواب دینا چاہیے پر اب ایک اور سوال گستاخی کرنے کو بے قرار ہے کہ قبائلی علاقوں میں یہ قتل عام کون کر رہا تھا ؟ وہ تو نہیں جنہیں آپ نے بنایا؟  ہم جنہیں “طالبان” کہتے  اور ’’دہشت گرد‘‘ سمجھتے ہیں لیکن آپ نے  پوری عقیدت و احترام  کے ساتھ آج  دنیا کے سامنے  انہیں  افغانستان کا  “اسٹیک ہولڈر” اور “اچھے طالبان”  کا خطاب دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر چہارسو “ظلِ سبحانی کا اقبال بلند ہو”، ” لفافہ صحافیوں کو کرارا جواب” اور “فوج کے خلاف بات کرنے والوں کی زبان کھینچ  لی جانی  چاہیے” جیسی صدائیں بلند ہورہی ہیں کیونکہ سوال کرنا جرم ٹہرا اور اختلاف کو بغاوت قرار دے دیا گیا ہے۔ حامد میر نے  سوال کرنے سے قبل طویل تعریفی تمہید کے ذریعے آدابِ بارگاہی میں کوئی کسر تو باقی نہ رکھی تھی لیکن اتنا  کرارا جواب بتا رہا تھا کہ سوال کرنا منع ہے۔ دیکھا جائے تو ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے سب سے کرارا جواب پاکستان  پیپلزپارٹی کی اعلیٰ  قیادت کو دیا کہ  ہم  پر انگلی اٹھانے اور پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں کیونکہ ’’نقیب اللہ محسود کا قاتل راؤانوار آپ کا بچہ تھا‘‘ بے شک وہ راؤ انوار جس کی گردن پہ سینکڑوں بے گناہوں کا خون ہے ماضی میں پاکستان  پیپلزپارٹی  کا بچہ تھا پر اب لگتا ہے کہ اس کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے اسے  گود لے لیا گیا ہے۔

انگریزی کا مقولہ ہے  ’’اگر جاننا چاہتے ہو کہ تم پر درحقیقت  حکمرانی کون کررہا ہے تو یہ معلوم کرو کہ تمہیں کس پہ تنقید کی اجازت نہیں ہے‘‘ تو معاملہ یہ ہے کہ پورا پاکستان جانتا ہے کہ کس پر تنقید کی اجازت نہیں ہے۔ گزشتہ پریس کانفرنس میں ترجمان افواجِ پاکستان نے ایک گھنٹہ بیس منٹ کی بریفنگ میں ایک گھنٹہ صرف کرتے ہوئے اراکین قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ سمیت منظور پشتین پر بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں سے رقم لینے کے حوالے سے سنگین الزامات لگائے۔   تمام ٹی وی چینلز یہ پریس کانفرنس  براہ راست دکھاتے رہے۔ آمریت کی اس سے بری مثال کیا ہوگی کہ اگلے دن قومی اسمبلی کے اجلاس میں محسن داوڑ کو ان الزامات کا جواب دینے کے لیے بمشکل دس منٹ دئیے گئے۔  ظاہر سی بات  ہے کہ دس منٹ میں ان سنگین الزامات کا جواب دینا ناممکن ہے۔ مائیک بند کیئے جانے  پر محسن داوڑ اور علی وزیر کے احتجاج پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر جناب قاسم خان سوری  انہیں دس منٹ دینے کا احسان جتاتے رہے۔

کیا کوئی بھی آزاد ذہن رکھنے والا انسان اس بات کو قبول کرسکتا ہے کہ ایک عوامی حمایت یافتہ  تحریک جس پر اتنے سنگین الزامات لگائے گئے ہوں اسے اس بات کی اجازت بھی نہ ہو کہ وہ ان سوالات کا جواب مین اسٹریم میڈیا یا  اسمبلی  میں دے سکے۔ ایسے میں اگر یہ لوگ سوشل میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا کا سہارا لے کر اپنی بات عوام کے سامنے رکھتے ہیں تو آپ انہیں غدار اور پاک فوج کے دشمن قرار دے دیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر افواج پاکستان کے پاس پشتون تحفظ موومنٹ کے سربرہان کے حوالے سے کوئی معلومات تھی تو وہ ایک بند کمرہ اجلاس میں متعلقہ اداروں کے سربراہان، وزارت داخلہ کے نمائندوں اور سنجیدہ صحافیوں کے ساتھ ان معلومات کا تبادلہ کرتے اور  بتاتے کہ ہمارے پاس ان کے خلاف یہ ثبوت ہیں۔

پھر وزارت داخلہ یہ طے کرتی کہ انکے خلاف کس قسم کی کاروائی کی جانی چاہیے۔ مزید یہ کہ اس تحریک سے وابستہ دو اراکین قومی اسمبلی سے ان الزامات کی بابت اسمبلی میں سوال کیا جاتا لیکن حالیہ دنوں کی صورتحال دیکھ کر تو صاف معلوم ہورہا ہے کہ جمہوریت کے نقاب کے پیچھے آمریت راج کررہی ہے۔  محسن دواڑ اور علی وزیر کی قومی اسمبلی میں نظر آنے والی بیچارگی  بتا رہی تھی کہ ہمارا مالک کون ہے۔ 

فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ ماضی کے ساتھ ساتھ  مستقبل  کا آئینہ ثابت ہوگا مجھے اسکا اندازہ نہیں تھا۔ اس فیصلے میں پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی اور افواج پاکستان کی پاکستانی سیاست میں مداخلت اور میڈیا پر اثررسوخ کے استعمال کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے گزشتہ دنوں اسکا بھرپور مظاہرہ دوبارہ سے کیا گیا۔  فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ ایک تاریخی اور سنگ میل قسم کا فیصلہ تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت  اس فیصلے کا احترام کرتی اور اسی کی بنیاد پر افواج پاکستان اور دیگر اداروں کو جوابدہی کا احساس دلاتی  مگر افسوس کے وزارت داخلہ اور خود پاکستان تحریک انصاف اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کرچکی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس فیصلے سے افواج پاکستان کے حوصلے پست ہوسکتے ہیں اور اس ادارے کی حیثیت مشکوک ہوسکتی ہے۔ جو الزامات ترجمانِ افواج پاکستان نے پشتون تحفظ موومنٹ پر لگائے ہیں  اور جو سوالات کیئے  ہیں بالکل ایسے ہی سوالات سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک لبیک پاکستان کے حوالے سے اٹھائے تھے کہ اس غیر معروف تنظیم کی مالی امداد کیسے اور کہاں سے ہوتی تھی اور اس دھرنے کے پس پردہ محرکات کیا تھے؟ اس دھرنے کی براہ راست نشریات سے اس غیر معروف تنظیم کو راتوں رات شہرت کس کی ایماء پر دلوائی گئی، اس دھرنے کی مخالفت کرنے والے  ٹی وی چینلز کی نشریات کو پورے پاکستان خاص طور پر کنٹونمنٹ کے علاقوں میں کس نے بند کروایا؟  الیکشن سے قبل مذہبی جذبات کو ابھار کر تحریک لبیک پاکستان  کو سیاسی انجیئنرنگ کے لیے کس نے استعمال کیا؟ دھرنا مظاہرین کو رقم تقسیم کرنے والا فوجی وردی میں ملبوس شخص کون تھا؟

یہ سارے سوالات تو وہ ہیں جو سپریم کورٹ آف پاکستان نے افواج پاکستان اور پاکستانی خفیہ ایجنسی پر اٹھائے ہیں لیکن اس دوران ایک بیانیہ پھر سے سامنے آیا ہے کہ افواج پاکستان کا ادارہ آج بھی “مقدس گائے” کی حیثیت رکھتا ہے اور آج بھی پارلیمان اور عدلیہ کا دم اسکے دباؤ سے گھٹ رہا ہے۔ عمران خان کی حکومت کو  پہلے دن سے ہی کٹھ پتلی حکومت کہا جاتا ہے لیکن ترجمانِ افواج پاکستان کی  حالیہ پریس کانفرنس سے موجودہ  “جمہوری حکومت” کا رہا سہا پردہ بھی ختم ہوچکا  ہے۔ جمہوری ریاستوں میں ریاست کا وجود عوام اور آئین کا محتاج ہے۔ ریاست کے انتظام اور عوام کی خدمت کے لیے حکومت اور اداروں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ تمام ادارے بشمول حکومت عوام کو جوابدہ ہیں۔ فوج بھی ایک ادارہ ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ یا کوئی اور گروہ  اگر بار بار ایک ادارے کے حوالے سے اپنے شکوک شبہات یا تحفظات کا اظہار کررہے ہیں تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ادارے سے بازپرس کرے لیکن ہمارے یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے۔ اسی لیے تو یہ “مقدس ادارہ”  حکومت کو بتاتا ہے کہ عوام اور دیگر اداروں کی ناک میں نکیل کیسے ڈالنی ہے کیونکہ بقول ترجمانِ افواجِ پاکستان “محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے اور جنگ بڑی بے رحم ہوتی ہے” ۔