مذہبی رواداری اور ہمارے رویے
عابدحسین
میں کل اپنے دوست سردار گورجندرسنگھ خالصہ سے ملنے اس کے کلینک پر گیا۔ گورجندر سنگھ کے آباء و اجداد کا تعلق تو پنجاب سے تھا لیکن ان کے باپ دادا کئی عشرے پہلے درگئی ضلع مالاکنڈ میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ گورجندر سمیت ان کے بہن بھائیوں کی پیدائش بھی درگئی مالاکنڈ میں ہوئی، تعلیم و تربیت بھی یہیں ہوئی اور کاروبار بھی یہاں ہے۔ سکھ حضرات کی اکثریت کی طرح سردارگورجندر سنگھ بھی طب وحکمت سے وابستہ ہے اور ایک خاندانی حکیم ہے۔ ضلع مالاکنڈ میں تین مختلف جگہوں پر وہ، اس کا بھائی اور چچا مشترکہ طور پر کلینکس چلارہے ہیں۔ یونانی طریقہ علاج اور جڑی بوٹیوں سے دوا بناتے اور علاج کرتے ہیں۔ گورجندر سنگھ کا خاندان مالاکنڈ کی مقامی اقلیتی سیاست میں بہت سرگرم ہے۔ یہ لوگ اقلیتوں کے حقوق کے لیئے کام کررہے ہیں۔ گورجندر سنگھ ایک سیاسی جماعت کے اقلیتی ونگ سے ضلعی ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ ایک ملنسار، رحم دل اور کھرے انسان ہے۔ دوستی نبھانے میں اپنی مثال آپ اور مذہب سے بالاتر ہوکر ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ غریبوں کی مدد بھی کرتے ہیں اور ہر ایک کی خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں۔
اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ قارئین کو ساری بات آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ خیر علیک سلیک کے بعد گپ شپ ہوتی رہی اور باتوں باتوں میں اس نے دبے الفاظ میں شکایت کی کہ عابد بھائی غصے کے ساتھ ساتھ میں دکھی بھی ہوں۔ دیکھو یار پرسوں چند مولوی حضرات کلینک پر آگئے اور مسجد کے لیئے چندہ مانگا۔ میں نے اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دیا اور وہ میرے کلینک سے نکل کر مارکیٹ میں دوسری دوکانوں سے بھی چندہ اکھٹا کرنے لگے۔ گورجندر نے کہا کہ ابھی مشکل سے پانچ منٹ ہی گزرے ہونگے کہ چندہ اکھٹا کرنے والوں میں سے ایک بندہ دوبارہ کلینک پر آیا اور مجھے چندہ واپس کرتے ہوئے بولا کہ مولوی صاحب کہہ رہے ہیں کہ آپ کا چندہ قبول نہیں ہوتا تو اس لیئے ہم آپکا چندہ نہیں رکھ سکتے۔ سردار جی نے کہا کہ میں نے باہر نکل کر مولوی صاحب کو آواز دے کر بلایا۔ وہ آۓ تو میں نے چندہ واپس کرنے کی وجہ دریافت کی تو مولوی صاحب کہنے لگے “آپ غیر مسلم ہو اور آپ کا چندہ یا خیرات قبول نہیں ہوتی اس لیئے میں نے آپ کا چندہ واپس کردیا۔
گورجندرسنگھ کہہ رہا تھا کہ میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ حضرت مجھے مطمئن کریں اور دینی حوالہ دے کر ثابت کریں کہ میں کسی کارخیر میں چندہ نہیں دے سکتا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ گورجندرسنگھ کے مطابق مولوی صاحب نے کہا کہ غیر مسلم کی خیرات یا چندہ وغیرہ حرام ہے، ہم نہیں لے سکتے۔ تب گورجندر نے جواب دیا کہ حضرت اگر غیر مسلم کا چندہ لینا حرام ہے تو پھر اس کے بنائی ہوئی چیزیں استعمال کرنا بھی حرام ہوگی، مولوی صاحب نے ہاں میں جواب دیا۔ گورجندرسنگھ کہہ رہا تھا کہ میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ جناب پھر تو اپنی ٹوپی اور تسبیح پھینک دیں کیونکہ یہ چائنا کی بنی ہوئی ہیں، مسجدوں میں پڑی جائے نمازوں کو نکال باہر کریں، غیر مسلموں کی بنائی ہوئی کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں کا استعمال بھی ترک کریں۔ تو مولوی صاحب نے آگے سے جواب دیا کہ نہیں یہ ضرورت کی چیزیں ہیں اور ان کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن آپ کا چندہ ہم پر حرام ہے۔ میرے سکھ دوست کے مطابق اس نے مولوی صاحب سے جب یہ سوال پوچھا کہ جناب ابھی ایک آدھ مہینہ پہلے ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے مظفرنگر میں ایک سکھ سردارونود سنگھ بیدی نے آٹھ سو مربع فٹ زمین مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیئے مفت دی ہے تو اس مسجد اور مسلمانوں کے بارے میں کیا رائے ہے۔ تو اس کے مطابق مولوی صاحب یہ کہہ کر چلتے بنے کہ ہمیں ہندوستان کی مسجد اور مسلمانوں سے کیا لینا دینا۔
سردار گورجندر سنگھ شکوہ کررہا تھا کہ اگر اسلام میں غیر مسلموں سے صدقہ خیرات یا چندہ لینا منع بھی ہے تو پہلے تو مسلمانوں اور خاص طور سے مذہبی نمائندوں، علماء اور مبلغین حضرات کو غیر مسلموں کے پاس چندہ لینے جانا ہی نہیں چاہیے اور اگر انہیں علم نہیں ہو تو پھر چندہ یا خیرات لے لینا چاہیے۔ چاہے دینے والے کا تعلق کسی بھی مذہب، مسلک یا فرقے سے ہو۔ ہاں اگر آپ کے مذہب میں ممانعت ہے تو بے شک ہمارے پیسوں یا کسی بھی دی ہوئی چیز کو جلائیں یا پھینکیں لیکن ہمارے منہ پر ایسا بول کر ہمارے خلوص کا ایسا کڑوا جواب تو نا دیں۔ خیر میں نے سردار گورجندر سنگھ کو سمجھایا کہ بھئی آپ دل پر مت لو۔ یہ واقعہ کم علمی اور معاشرتی و مذہبی رواداری سے لاتعلقی کی وجہ سے ہوا ہے۔ میں نے یہ کہہ کر بات ختم کی کہ غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے اور کم علم کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ اس کو تسلی دی کہ دل چھوٹا مت کرو کیونکہ یہ ملک، علاقہ اور یہ معاشرہ ہم سب کا مشترکہ ہے اور ہم ایک دوسرے کے بغیر کچھ بھی نہیں ہیں۔
لیکن اب جب یہ سب لکھنے بیٹھا ہوں تو ذہن میں کئی سوالات ابھر رہے ہیں کہ:
کیا بحثیت معاشرہ اور بحثیت قوم ہم صرف اپنے آپ تک محدود ہوچکے ہیں؟
کیا ہمارے اندر رواداری کا مادہ ناپید ہوچکا ہے؟
کیا ہمارے معاشرے میں بسنے والے دوسرے مذاہب کے لوگ ہمارے لیئے قطی کوئی اہمیت نہیں رکھتے؟
کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم ہمارے ساتھ رہنے والے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے اچھا برتاؤ کریں۔ ان کا دل رکھنے کے لیئے ہم تھوڑی لچک کا مظاہرہ کریں؟
کیا ایک کثیرالمذہبی معاشرے میں رہنے والے علماء کرام و مبلغین پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ عام افراد کی تربیت کریں کہ کس طرح سے ایک غیر مسلم کے ساتھ دوستانہ سلوک روا رکھا جائے؟
کیا اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور مذہبی درس گاہوں کے اساتذہ کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ طلباء کو یہ بتائیں اور سکھائیں کہ غیر مسلم کے ساتھ کس طریقے سے پیش آنا چاہیے؟
مدارس کے اساتذہ، مبلغین،علماء و طلباء کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اپنے اقوال و افعال میں احتیاط برتیں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ خدارا! والدین اپنے بچوں کو گھر پر یہ بتائیں اور سکھائیں کہ ہمارے ملک یا ہمارے معاشرے میں رہنے والی غیر مسلم برادری خواہ وہ مسیحی ہو، سکھ ہو یا ہندو ہو ان کے ساتھ رواداری سے پیش آنا چاہیے۔ اسکول اور کالج کی سطح پر اساتذہ کا فرض بنتا ہے کہ اپنے شاگردوں کو بتائیں کہ غیر مسلم ہم وطنوں کی عزت کریں، ان کو احساس کمتری، دشمنی یا نفرت کا احساس نہ دلائیں۔ معاشرے کے سرکردہ افراد، عوامی راۓ عامہ پر اثر رکھنے والے دانشور، سیاسی و سماجی اراکین کو بھی اپنا کردار نبھاتے ہوۓ عام افراد کو ایجوکیٹ کرنا چاہیے کہ مذہب سے بالاتر ہوکر ہر ایک سے برابری کی سطح پر سلوک کریں۔ سب سے اہم ذمہ داری علماء کرام کی بنتی ہے کہ وہ مذہب کے اصولوں کے مطابق مسائل کو وضع کریں انکی تشریح کریں کہ غیر مسلموں کے ساتھ کس طرح سے معاشرت کرنی چاہیئے یا ان کی خوشی وغم اور تہواروں میں کس طرح سے شرکت کی جاسکتی ہے۔
اسلام امن، بھائی چارے، رواداری اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔اسلام عدم برداشت، عدم رواداری، نفرت اور شر انگیزی سے روکتا ہے۔ اگرچہ آج کے دور میں بہت کم ہی مسلمان ایسے ہیں جن کے کردار سے کوئی غیر مسلم متاثر ہو سکے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نبی رحمت اللعالمین ایک ایسی ہستی تھے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے کردار سے متاثر ہوکر ہی ان کے قریبی ساتھیوں نے اسلام قبول کیا۔ تو التجا یہ ہے کہ ہم ایک کثیرالجہتی، کثیرالمذہبی، کثیرالمسلکی، کثیرالثقافتی معاشرے کے باسی ہیں۔ ہمیں برداشت، مذہبی رواداری اور پیار و محبت کے ساتھ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے جذبات و احساسات اور عقائد کا احترام کرنا ہوگا اور انہیں اپنائیت کا احساس دلانا ہوگا۔
اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کرلیا جائے تو یہ شر وفساد، ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری ہوئی دنیا جنت بن جائے۔ محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم، کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہیں ہے۔
ہمارا معاشرہ ہمارا یہ ملک ایک باغیچے کی طرح ہے۔ باغیچے میں ہر قسم کے پھل اور پھول ہوتے ہیں جو رنگ، خوشبوں اور ذائقے میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں لیکن ان کی موجودگی سے باغیچے میں رونق ہوتی ہے۔ ہمیں بھی اپنے قول و فعل اور کردار سے محبت اور رواداری کا پیغام دینا ہوگا اور نفرت اور عدم برداشت پر مبنی رویوں سے گریز کرنا ہوگا۔