منظور پشتین اور پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت کیوں ضروری ہے؟


ارشد سلہری

پشتون تحفظ موومنٹ کیا قیام باقی تنظیموں یا سیاسی جماعتوں کی طرح سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمل میں نہیں لایا گیا بلکہ حالات و واقعات اورعوامی حقوق کیلئے احتجاج کے اندر سے تحریک نے جنم لیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی سنگینی اور کراچی میں محسود قبیلے کے نوجوان نقیب اللہ کی شہادت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین جب دارالحکومت اسلام آباد پہنچے اور کئی دن تک دھرنا دیئے رکھا جو تحریک کی شکل اختیار کرگیا۔

جس کا مطلب ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کا ظہور ہوا ہے۔ جس طرح 1968-69کی تحریک کے بطن سے پاکستان پیپلزپارٹی نے جنم لیا تھا۔پیپلزپارٹی اس وقت عام عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت بن کر ابھری تھی۔ پشتون تحفظ موومنٹ بھی مظلوم پشتون عوام کی حقیقی نمائندہ تحریک بن کر ابھری ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تحریک میں قوم پرستی کا عنصر غالب ہے جو کہ فطرتی عمل ہے۔ کیونکہ تحریک خاص حالات میں مخصوص علاقوں سے نمودار ہوئی ہے۔ مگر یہ روایتی قوم پرستی نہیں ہے بلکہ زخم خوردہ قوم پرستی ہے۔ جس میں غم و غصہ اوراپنے حقوق کی شدت موجود ہے۔اس امرکا اندازہ پشتون تحفظ موومنٹ کو میسر آنیوالی قیادت سے لگایا جا سکتا ہے کہ منظور احمدپشتین ایک عام سا نوجوان ہے۔ جس نے کم عمری میں اپنے علاقے کے دکھ درد کو محسوس کیا اور بے وسلہ نتائج سے بے پروا دکھی لوگوں کی اشک شوئی کیلئے چل پڑا۔منظور پشتین کے فرشتوں کو خبر نہیں تھی کہ وہ ایک بڑی تحریک کو لیڈ کرنے جا رہا ہے۔

منظور پشتین کیسی بڑے سیاستدان ،جاگیر دار،وڈیرے یا سرمایہ دار کا سپوت نہیں ہے۔ جس نے کوئی سرمایہ کاری کرکے پشتون عوام کو اپنی طرف راغب کیا ہے۔اس لئے اس پر کوئی بھی ،کیسی بھی قسم کا الزام دھرنا نہ صرف غیرمناسب ہے بلکہ انتہائی بہودہ حرکت ہے ۔حالات کی ستم ظریفی اور ظلم وجبر کی بے رحمی کی صورتحال کے مقابلے میں ابھرنے والی قیادت اور خالص نوجوانوں کی اس تحریک کی حمایت بالعموم تمام پاکستانیوں اور بالخصوص پنجابی عوام پر عین فرض ہے ۔آج اگر خاص کر پنجابی عوام نے پشتون تحفظ موومنٹ کے باشعور نوجوانوں کو سینے سے لگانے کی بجائے ان پر غیرملکی ایجنٹ ،ملک دشمنی اور غداری کے بہودہ الزام لگا کر دھتکار دیا تو میرے منہ میں خاک پھر وطن عزیز پاکستان کے استحکام اور سلامتی کی ضمانت کوئی بندوق او نہ ہی آپ کا ایٹم بم دے سکے گا۔پیداشدہ صورتحال میں پاکستان کی سلامتی کی ضمانت صرف اور صرف پنجاب ہی دے سکتا ہے۔ پشتون تحریک کے تناظر میں پنجاب اور پنجابی کو اپنا قومی کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔نظرانداز کرنے یا پہلوتہی برتنے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔

کیونکہ زخم خوردہ تحریکوں کو مزید زخم دیکر دبانے کی کوشش مہلک ترین ثابت ہوتی ہے۔ عوام اور مقتدر حلقوں کو یاد دہانی کرادوکہ پاکستان اس تجربے سے گزر چکا ہے ۔جس کے اثرات آج تک زائل نہیں کیے جا سکے ہیں ۔موجودہ صورتحال میں وطن پاک مزید زخم کھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ملک کے حکمرانوں ،ریاستی اداروں سمیت عام پاکستانیوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلہ ایک فرد منظور پشتین کا نہیں ہے بلکہ پشتون تحریک کا ہے۔ پشتون عوام کے حقوق کا ہے۔پاکستان کی سلامتی و استحکام کا ہے۔امن اور دہشتگردی کیخلاف جنگ کا ہے۔ اہم ترین بات ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ پرامن ،لبرل اور سیکولر تحریک ہے۔تحریک کی قیادت سمیت کارکنان اور وابستگان تل تعلیم یافتہ اور باشعور شہری ہیں۔یہی وجہ ہے کہ منظور پشتین اور پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت بہت ضروری ہے۔پشتون ہمارے جسم کا اٹوٹ حصہ ہیں ۔کوئی غیر نہیں ہیں۔پاکستانی ہیں ۔جس طرح پنجابی،سندھی اوردوسرے پاکستانی ہیں۔