’’موت سے پہلے اور بعد کے ڈپارٹمنٹ‘‘
فرید قریشی، لندن
سائنس کمیونٹی وہ ہے، جنہوں نے موت سے پہلے کی زندگی کا ’’ڈیپارٹمنٹ‘‘ سنبھالا ہوا ہے۔ ان کا کام انسانیت کے لیے نت نئی ایجادات، ادویات، علاج، اربوں کروڑوں میل دور سیاروں اور ستاروں کی دریافت، کائنات کے رازوں پر غور و فکر اور ٹیکنالوجی کی ترقی ہے۔ یہ کائنات کی ابتداء ’بگ بینگ‘ اور تقریباً چار ارب سال پہلے سیارہ زمین کی تخلیق ، پھر اس پر زندگی کی شروعات اور ارتقاء کے بارے میں بتاتی ہے۔
ہمارے دل کی شریانوں سے لے کر دماغ کے خلیوں تک پر نظر رکھتی ہے، اسکین کر کہ بتا دیتی ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ ہے یا بچی اور یہ ان کاموں کے ثمرات میں ہمیں پورا پورا حصہ دیتی ہے۔ ہم میں سے کوئی بیمار ہو، تو اس کی جان بچانے کی پوری کوشش اسی سائنس کے مرہونِ منت ہے، اس سلسلے میں یہ کسی بخل سے کام نہیں لیتی، زمین سے اربوں میل دور کسی سیارے کی تفصیلات کا پتہ چلے تو ہمیں فوراً بتاتی ہے۔ موسم کی خرابی، سیلاب، برف باری کا پیشگی علم ہو، تو ہمیں آگاہ کرتی ہے۔
موبائل، کمپیوٹر، گاڑی، جہاز ہر ایجاد سے ہمیں مستفید ہونے کا پورا موقع دیتی ہے۔ الغرض یہ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ہمارے ساتھ پورا پورا تعاون کرتی ہے، چاہے ہم اس کے خیالات سے متفق ہوں یا نہیں اور چاہے ہمارا تعلق کسی بھی مذہب، فرقے، نسل یا علاقے سے ہو۔ اسٹیفن ہاکنگ، کرسٹوفر ہچنز، لاؤرنس کراؤس، رچرڈ ڈاکنز، سیم حارث سمیت بڑے بڑے سائنس دان اس کمیونٹی کے سرخیل ہیں۔
یہ اختلاف رائے اور تنقید کو پسند کرتے ہیں اس پر قتل نہیں کرتے۔ اگر کسی نئی تحقیق کے نتیجے میں کوئی پرانی بات غلط ثابت ہو جائے تو اپنی غلطی کو تسلیم کر کہ نئے شواہد کو قبول کرتے ہیں۔ مگر ان کی اکثریت موت کے بعد کی زندگی کو نہیں مانتی، کہتے ہیں خدا کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں، جنت جہنم کو من گھڑت کہانیاں کہتے ہیں اور صحیح یا غلط کا فیصلہ شواہد اور دلائل کی بنیاد پر کرتے ہیں، غیب پر ایمان نہیں لاتے۔
دوسری طرف ہم ہیں، جنہوں نے موت کے بعد کی زندگی کا ’’ڈیپارٹمنٹ‘‘سنبھال رکھا ہے۔ ہم جنت کی آسائشیں اور جہنم کے عذاب کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ہم موت کے بعد کی زندگی کے ایک ایک لمحے کی تفصیل، قبر میں ہونے والے سوالات اور ان کے جوابات، جہنم کی آگ کے ٹمپریچر اور شعلوں کی اونچائی، قبر کے سانپوں کے زہر اور ان کی جسامت، ، جنت کی حوروں کی خوب صورتی، ان کی آنکھوں اور جلد کی رنگت سمیت سب چیزوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ ہم بتاتے ہیں کہ اگر ہمارے خیالات و عقائد سے اتفاق کرو گے تو جنت ملے گی، اختلاف یا تنقید کی صورت میں جہنم اور عذاب قبر تمہارا مقدر ہو گا، بلکہ بعض صورتوں میں تو تنقید یا اختلاف پر یہیں دنیا میں سزا و جزا کا فیصلہ کر کہ سرعام موت کی سزا نافذ بھی کر دیتے ہیں۔
ہمارے پاس نہ ان باتوں کا کوئی ثبوت ہے اور نہ ہمیں اپنے ان عقائد و نظریات پر یقین کے لیے کسی دلیل کی ضرورت ہے بلکہ ہم غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔
کیا ایسے نہیں ہو سکتا کہ ہم بھی ان کے ساتھ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں تعاون کریں، جیسے یہ ہمارے ساتھ یہاں کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خیالات کا احترام کریں، اختلاف رائے کو برداشت کریں، اس دنیا کو جنت بنا کر، مل جل کر ہنسی خوشی رہیں اور وہاں موت کے بعد کی جنت میں بھی مل جل کر رہیں۔