مہاجر کیمپ
وقاص احمد
آج تین ماہ سے کچھ اوپر دن ہوگئے ہیں اپنے تباہ حال ملک سے جان بچا کر فرار ہوئے۔ سچ تو یہ ہے کہ تکلیف اور مصائب کا سامنا ہوا تو پتہ چلا کہ میرا بھوٹانیہ کیسی پر آسائش جنت تھا۔ دل بھر آتا ہے جب ان گلی کوچوں کو یاد کروں جس میں بارش کے موسم میں کھڑے پانی کی شکایت پر ہم اپنے ملک اور اپنےحکمرانوں کو گز گز کے کوسنے اور گالیاں دیا کرتے تھے۔ آج وہی ابلتے گٹر، وہی مکھی مچھر وہی گرمی یاد آرہی ہے۔ شاید زندگی میں پہلی دفعہ ہمیں تصویر کا دوسرا رخ نظر آرہا ہے۔ اتنا گندہ بھی نہیں تھا میرا ملک کہ رہا نا جاتا، اتنے برے بھی نہیں تھے لوگ کہ برداشت نا ہوتے، اتنے برے بھی نہیں تھے لیڈر کہ غدار کہے جاتے، اتنا برا بھی نہیں تھا نظام کہ لپیٹنے کی قسمیں ہی کھاتے رہتے۔ آج بھوک ننگ بے سروسامانی کے عالم میں اپنے گلیاں کوچے یاد آتے ہیں۔ جہاں کھانا بھی تھا، سکون بھی تھا، تن پر کپڑا بھی تھا، سر پر چھت بھی تھی۔ افسوس مرغ مسلم کے خوابوں میں، ہم عزت کی دال روٹی سے بھی گئے۔ اپنے ہاتھوں نظام تو لپیٹ ڈالا اور اب لگتا ہے کہ زندگی بھی لپیٹی گئی ہے۔
ابھی ہم ایک یورپی مہاجر کیمپ میں شدید ٹھنڈ اور بھوک کے عالم میں چند کپڑوں کے چیتھڑوں میں ملبوس آگ کی ایک ڈھیری کے پاس بیٹھے ہیں۔ کیا امیر اور کیا غریب، اب تو سب برابر ہوگیا۔ کل کے اربوں پتی آج بھکاریوں کے برابر بیٹھے ہیں۔ سینکڑوں لوگوں کے درمیان ان چند لکڑیوں کی آگ کی تپش تو کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن اس کے علاوہ ہے بھی کیا ہمارے پاس؟ کل کشتی سے گر کر ڈوب جانے والے ہمارے ایک 3 سالہ بچے کی لاش آج کوسٹ گارڈز نے ہمارے درمیان لا پھینکی تو بچے کے ماں باپ سمیت ہم سب کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ سب دھاڑیں مار کر ایسے روئے جیسے سب ہی کے بچے آج ہی مرے ہیں۔ پتہ نہیں اس معصوم کی لاش میں ایسی کون سی جادوئی طاقت تھی کہ سب کو اپنے انفرادی جرائم یاد آنے لگے۔ دکھ اور تکلیف میں جب اپنے جرم کے خلش یکجا ہوجائے تو بندہ اپنے اختیار میں نہیں رہتا۔
سب پہلے ایک بندہ بولا، مجھے معاف کر دو، میں ایک استاد ہوں، میرے سامنے میرے ملک میں یہ نفرت اور تعصب پنپتا رہا اور میں کچھ نا کر سکا۔
پھر ایک سیاستدان اٹھا اور غالباً اپنی زندگی کا پہلا سچ بولتے ہوئے رو پڑا۔ “مجھے پتہ تھا کہ ہم اسی طرف جا رہے ہیں۔ میں جانتا تھا کہ میری مفاد پرستیاں، میری نالائقیاں میری کوتاہ نظری اور میری سیاسی کم ظرفی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ہمارے ملک میں پیدا بگاڑ کو درست کرنے کے لئے۔ کاش میں مصلحت پسند نا بنتا، کاش میں وقتی اقتدار کے لالچ میں اس ملک کو جانتے بوجھتے اس گڑھے میں نا دھکیلتا۔ کاش میں تعصب اور نفرت کو ہوا دے کر اپنی سیاست نا چمکاتا”.
پھر ایک منصف اٹھا، پھر ایک معیشت دان اٹھا، پھر ایک عام سرکاری ملازم اٹھا غرض ہر شعبے کے لوگ ایک ایک کر کے اپنے انفرادی/ اجتماعی گناہوں کا اعتراف کرتے چلے گئے۔ ماسوائے ایک بندے کے۔
یہ بندہ کون تھا، ہم نہیں جانتے تھے۔ یہ پناہ گزینوں والی کشتی میں بھی ہم سے الگ تھلگ بیٹھا تھا، دیکھنے میں سخت جان اور باتوں میں رعب دار لگتا تھا۔ اس کسمپرسی کے عالم میں بھی اس کے اٹھنے بیٹھنے میں ایک عجیب شاہانہ جھلک تھی۔ سارا مجمع جب اپنے اپنے حصے کی غلطیوں کا اعتراف کر بیٹھا تو سب کی نظریں اس پر پڑیں۔ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کر بھی وہ گڑبڑایا نہیں، درشت اور میکانکی لہجے میں بولا “ہم کوئی غلطی نہیں کرتے، ہم بالکل ٹھیک ہیں۔”
لیکن پھر چند ساعتوں بعد جیسے اچانک دریا کا بند ٹوٹ جائے اور سیلاب آ جائے۔ وہ درشت اور رعب دار انسان کھڑا ہوا اور ہاتھ باندھ کر رو پڑا، “میں تم لوگوں کا مجرم ہوں، وسیع تر قومی مفاد کے نام پر میں نے جو اس ملک کے ساتھ کیا اس میں سے بہت سی چیزوں سے تو آپ واقف بھی نہیں۔ میری واحد غلطی اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے کی تھی، میں کسی کی بات، کسی کی رائے یا نظریے کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ میں محب الوطن تھا لیکن میرا قصور یہ تھا کہ میں اپنے علاوہ کسی اور کو محب الوطن نہیں سمجھتا تھا۔ میرے ذہن میں ملک کو عظیم تر بنانے کا جو خاکہ تھا اس سے اختلاف کرنے والے کو میں عبرت کا نشان بنا ڈالتا تھا۔ میرا یقین کریں میں بھوٹانیہ سے بے انتہا محبت کرتا تھا، مگر مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ میں یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ بھوٹانیہ سے کوئی اور بھی محبت کر سکتا ہے. کوئی اور بھی اس کے لیے پر خلوص ہو سکتا ہے. کسی اور کا نظریہ بھی بھوٹانیہ کو عظیم بنا سکتا ہے۔ مجھے معاف کر دیں”۔
ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ کسی کو سمجھ ہی نا لگی کہ یہ بندہ کون تھا جس نے اپنا تعارف تک نا کروایا یا پھر لوگ یہ جاننے کی دلچسپی تک کھو بیٹھے تھے۔ میں بھی تکلیف میں کراہتا ہوا اٹھا کہ آگ کے کچھ قریب ہو جاؤں کہ میری نظر اس بارعب بندے کے پیروں میں پڑی اس کی پھٹی ہوئی پوٹلی پر پڑی اور میں عبرت سے لرز اٹھا۔ پوٹلی میں سے ایک قمیض جھانک رہی تھی جس کے کندھوں پر کچھ چمکتے ہوئے ستارے نظر آرہے تھے۔