نفرت نے کچھ اور گھر اجاڑ دیے

 

عاطف توقیر

یونانی جزیرے لیسبوس پر پھنسے پاکستانی مہاجر عمران سے میری ملاقات اس کے پلاسٹک کے خیمے کے باہر ٹوٹی پھوٹی کرسی پر بیٹھ کر ہوئی تھی۔ پنجاب کے ضلع گجرانوالہ کا یہ رہائشی فقط بہتر زندگی کے لیے اپنی مٹی، اپنے ماں باپ، اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں یاروں کو پیچھے چھوڑ کر پہنچا تھا۔

اس کے خیمے سے کچھ ہی فاصلے پر پوری مہاجر بستی کا کچرہ جمع تھا اور اس کے اپنے خیمے میں دو بستر لگے تھے، جن میں سے ایک پر گجرات سے تعلق رکھنے والے آصف کا قبضہ تھا۔ آصف اردو کا ایک لفظ تک نہیں جانتا تھا اور اسی لیے وہ عمران سے ہونے والی میری بات چیت کو فقط فخریہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا، جیسے اردو بولنا کوئی غیرمعمولی کام ہے۔ عمران کی اردو بھی فقط رسمی تھی اور اگر میں خود پنجابی نہ ہوتا، تو شاید اس کی آدھی بات میری سمجھ سے ہی بالا بالا گزر جاتی۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اگر وہ ایک لفظ بھی نہ بولتا، تب بھی گھر کا خیال، بیماری سے مر جانے والی اپنی چھوٹی بہن، جس سے وہ بے انتہا محبت کرتا تھا، اپنے بوڑھے ماں باپ اور اپنے گاؤں کا تصور اس کی آنکھوں میں اتر آنے والے سمندر سے پڑھا جا سکتا تھا۔

عمران انسانوں کے اسمگلروں کو پیسے دے کر کیچ کے راستے سے 12 دیگر افراد کے ساتھ ایران میں داخل ہوا۔ اس وقت اس کا ایک انتہائی قریبی دوست بھی اس کے ساتھ تھا، تاہم ایران میں پولیس والوں کی فائرنگ میں وہ لڑکا زخمی ہوا اور اس کے بعد اسے کہاں لے جایا گیا، یہ عمران کو معلوم نہیں تھا۔ عمران کا موبائل فون کیچ میں قیام کے دوران کھو گیا تھا اور پھر وہ ایک طویل عرصے تک اپنے ماں باپ سے رابطہ تک نہ کر سکا۔ عمران کے مطابق کیچ ہی پاکستان کا وہ آخری علاقہ تھا، جس کے بعد سے اب ڈیڑھ برس گزر جانے کے باوجود وہ اپنے دیس کو دیکھ نہیں پایا۔

غربت ہم سے کیا کیا کچھ چھڑوا دیتی ہے اور ہم بھوک اور رنج کے مارے لوگ فقط زندہ رہنے کے خواب کے پیچھے کن کن ڈراؤنے خوابوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔

عمران اپنی کہانی سنا رہا تھا۔ ایک ایسی کہانی جس کی ہر سطر روح کو جھنجھوڑ دینے والے زخم سے عبارت تھی، جس کا ہر خاموش موڑ کسی خوف ناک فلم کی طرح کسی نئے دلدوز کھٹکے کا پیش خیمہ تھا۔

یہ کیچ شہر کتنی صدیوں سے جدائی اور ہجر کی ایسی داستانیں اپنے اندر رکھے ہوئے ہے۔ سسی صدیوں پہلے اسی کیچ سے ننگے پاؤں پنوں پنوں کہتے گزری تھی۔ اسی دھرتی پر پانی پلانے کے بدلے سسی کا جسم ادھیڑنے والے کی نگاہوں نے سسی سے خدا سے زمین شق کر کے نگل جانے کی دعا کروائی تھی۔ یہ افسانوی داستان سہی مگر اس کا درد آفاقی ہے۔

یہ کیچ ہی ہے، جو آج پھر کچھ لوگوں کو نفرت کی بلا کی نذر کر گیا۔ مگر آج زمین شق نہیں ہوئی، نہ ہی ان میں سے کسی نے موت کی دعا مانگی تھی۔ ایک بار پھر متعدد مزدور فقط پنجابی ہونے کی بنا پر قتل کر دیے گئے۔

میں آج یہ خبر پڑھ رہا تھا، تو ایک ثانیے کو پھر یونان کے اسی گندے بدبودار کیمپ پہنچ گیا، جہاں زندگی تلاش کرنے کے لیے موت سے کھیل کر پہنچنے والے مہاجر بیٹھے تھے۔ مجھے لگا کہ وہ پنجابی جنہیں فوج کے لیے کام کرنے والا مزدور قرار دے کر قتل کیا گیا ہے وہ سب مہاجر تھے۔ وہ سب زندہ رہنا چاہتے تھے۔ اپنے گھربار چھوڑ کر لق دھق صحرا اور سنگ لاخ چٹانوں میں اپنے لیے روزی ڈھونڈنے نکلے تھے، مگر موت نے انہیں ڈھونڈ لیا۔

پاکستان بنے ستر برس ہو چکے۔ مگر آج بھی ہمارے بچے نفرتوں کے باردو سے ایک دوسرے کو رنگ اور نسل کی بنیاد پر کاٹنے میں مصروف ہیں۔ ہمارے بچے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر ملک چھوڑنے میں جتے ہیں اور ہم خود سے یہ تک پوچھنے سے قاصر ہیں کہ کیا ہم اپنے دیس کو درست سمت میں لے جا رہے ہیں؟

ہمارے اپنے ہاتھوں سے ہمارے اپنے لوگوں کے گلے کٹ رہے ہیں اور ہمارے بیچ گفت گو فقط یہ ہو رہی ہے کہ آیا یہ قتل درست تھا یا نہیں؟

سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی انسان کا قتل کسی بھی حالت میں درست ہو سکتا ہے؟

کسی پنجابی کے ہاتھ سے کسی بلوچ کا خون بہے یا کسی بلوچ کے ہاتھ سے کسی پنجابی کا۔ کوئی پشتون کسی سندھی کو مارے یا کسی مہاجر کا گلا کٹے، ہر حال میں ہمارے اپنے دیس کی بنیادیں ہل رہی ہیں۔

کسی بلوچ کے ساتھ زیادتی پر جس طرح مجھ سمیت بہت سے پنجابیوں، پشتونوں اور دیگر افراد نے آواز اٹھائی اور اٹھاتے رہیں گے اسی طرح کیچ میں مارے جانے والوں پر بھی بلوچوں سمیت ہر برادری کو بھرپور آواز اٹھانا چاہیے۔

ریاست پر ضمیر فروشوں کا قبضہ ستر برس سے ہے اور دوسری جانب ظالموں کا ایک ایسا ٹولا ہر سو پیدا ہو چکا ہے، جو ریاست کے ظلم کا بدلا عام شہریوں سے لینے پر تلا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں ظالم ایک سے ہیں اور یہ بات انہیں کے مفاد میں ہے کہ ان کی بنائی ہوئی دراڑوں کو ہم اپنی نفرتوں سے مزید بڑھاوا دیتے رہیں۔ نفرت کو مسترد کر کے ان ظالموں کی بھرپور اور بلامشروط مذمت ہی، ہمارا مستقبل محفوظ بنا سکتی ہے۔ جو جو شخص کسی بھی قتل کو جائز قرار دے، وہ اپنی باری کا انتظار کرے۔

اس واقعے کے بعد آپ کے سامنے تین طرح کے لوگ آئیں گے، ایک تو وہ جو انسانوں کی ان ہلاکتوں کی مذمت کرتا ملے گا بالکل ویسے ہی انداز میں جس طرح کسی ریاستی ادارے کے ہاتھوں مرنے والے یا کسی دہشت گرد کے ہاتھوں اس سے قبل قتل ہونے والوں کی کرتا آیا ہے۔

دوسرا وہ جو ان عام افراد کے قتل کو درست عمل قرار دے گا اور کہے گا کہ یہ افراد فوج کے ساتھی تھے یا یوں تھا اور یوں تھا اس لیے یہ قتل جائز تھا۔ تیسرا وہ جو ان افراد کے قتل کو بلوچوں کے خلاف طاقت کے استعمال، ان کی گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی حمایت کے لیے استعمال کرے گا۔ یہ طبقہ اصل میں میں انسانی جانوں کے ضیاع یا انسانی حرمت پامال ہونے کی مزمت کرنے نہیں بلکہ اس قتل کو لسانی رنگ دے کر بلوچوں کے خلاف نفرت میں اضافے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ کتنا عجیب معمہ ہے کہ قتل کی تحقیقات کرنے اور اس واقعے مین ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی بجائے، قاتل کا خود ہی تعین بھی کیا جا چکا ہے، الزام بھی عائد کیا جا چکا ہے اور اپنے تئیں ثابت بھی کیا جا چکا ہے۔ یہی بات یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ان افراد کا مسئلہ غریب مزدوروں کا قتل نہیں اس واقعے کا فائدہ اٹھانا ہے اور مزید نفرت پیدا کرنا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ آخر کے یہ دونوں قبیلے اصل میں ایک ہی بات پر متفق ہیں اور وہ یہ کہ انسانوں کا خون بہتا رہے۔ جواز کچھ بھی ہو لوگ مرتے رہیں۔ یہ وہی افراد ہیں جو ہر دور کی تاریخ میں غلط سمت میں کھڑے ملتے ہیں۔

کسی ریاستی ادارے کے ہاتھوں ماورائے آئین و قانون قتل ایک بھیانک عمل ہے اور مرنے والا کسی بھی قوم یا برادری سے تعلق رکھتا ہو، مذمت انتہائی ضروری اور انسانی بات ہے۔ اسی طرح کسی عسکریت پسند گروہ کے ہاتھوں اس طرح کے قتل کی ویسی ہی شدت سے مذمت بھی ایک لازم عمل ہے۔

مزدور پنجابی یا سندھی یا بلوچ نہیں ہوتا۔ وہ بھوکا ہوتا ہے، غریب ہوتا ہے۔ اس کے سر پر اپنے خاندان کا بوجھ ہوتا ہے اور روٹی تلاش کرنے نکلتا ہے اور ایسے میں نفرت کی فصل جو اس نے بوئی بھی نہیں کاٹنا پڑ جاتی ہے۔

تاریخ میں اپنا چہرہ دیکھنے کے لائق بنانا ہے، تو پہلی طرز کی انسان بنیے جو ہر ذات، رنگ اور نظریے سے بالا ہو کر گھروں کے اجڑنے کا غم کرتے ہیں۔

خدا اس دیس کی حفاظت کرے۔

 

(یہ تحریر گزشتہ برس ایسے ہی ایک واقعے پر تحریر کی گئی تھی، جسے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے)