’نقیب‘ حیران ہے، میڈیا کہاں گیا؟

حمزہ سلیم

ظلم کے نظام کی بھینٹ چڑھنے والے نقیب اللہ محسودکی روح یقیناﹰ حیران ہو گی کہ ابھی کچھ وقت قبل ہی تو اسلام آباد میں ایک دھرنا ہوا تھا جس میں پورے ملک کا میڈیا موجود تھا، لمحے لمحے کی لائیو رپورٹنگ ہو رہی تھی، شرکاء کا جوش و خروش، مقررین کی للکار اور چیخ و پکار، سب براہ راست دکھایا جا رہا تھا۔

مگر ایک احتجاج یہ بھی ہے جو ایک مظلوم کو انصاف دلانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس مقتول و مظلوم کا نام نقیب اللہ محسود ہے۔ اس کے باپ نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ نقیب اللہ کو انصاف دیّت کی رقم سے نہیں، مجرم کو پکڑنے اور سزا دینے سے ملے گا اور اب نقیب اللہ میرا بیٹا نہیں قوم کا بیٹا ہے، اس لیے اب ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ ہی کوئی سودے بازی کریں گے۔

آفرین ہے، دھرنے کے شرکاء کو، جو مکمل پر امن ہیں۔ ہتھیار کو زیور قرار دینے والے مکمن طور پر غیرمسلح ہیں۔ جنہوں نے ہر اس مقرر کو اسٹیج سے دور رکھا جس نے اس اشیو کو پولیٹیسائز کرنے یا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے تو پختون قوم پرستوں کو بھی اپنا داؤ کھیلنے نہیں دیا کہ وہ اس کو ایک ’’پشتون‘‘ کے ساتھ ہونے والا ظلم قرار دینے کی جستجو میں تھے۔

یہ چیز بتا رہی ہے کہ وہ صرف انصاف چاہتے ہیں اور اس مسئلہ کو پرامن طور پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ مگر دوسری طرف، شہید مظلوم نقیب اللہ محسود کی روح حیران ہے کہ میڈیا کیوں خاموش ہے۔ اب اسے کون سمجھائے، چوں کہ اس احتجاج کے پیچھے کسی ’طاقتور‘ کا ہاتھ نہیں، چوں کہ اس احتجاج کے لیے فنڈز مختص نہیں کیے گئے ہیں، چوں کہ اس احتجاج کے لیے دیہاڑی دار بندے ہائر نہیں کیے گئے، چوں کہ اس احتجاج کے لیے کسی کو ولایت سے یا کینیڈا سے نہیں بلایا گیا، چوں کہ اس احتجاج میں دل ربائیں ناچتی تھرکتی نظر نہیں آ رہیں، چوں کہ اس احتجاج سے کرپٹ اور ظالم نظام سے بغاوت کی بو آتی ہے، چوں کہ یہ احتجاج ، ڈرامہ نہیں بلکہ اصل ہے، جو ظلم کے اس نظام کی چولیں ہلا سکتا ہے اور چوں کہ اس احتجاج سے ٹی وی چینلز کو ’’روکڑا‘‘ ملنے کی کوئی امید نہیں،

لہٰذا تسلی رکھو، ٹی وی چینلز، اخبارات، صحافی، کیمرہ مین اس سے دور رہیں گے۔

ظلم کا یہ نظام اور بڑے بڑے ظالم لوگ، اسی میڈیا کے تعاون سے تو اپنا کاروبارِ چلا رہے ہیں۔ یہ بات کا بتنگڑ بنانے اور کسی اہم مسئلہ کو نظرانداز کرنے کا فن خوب جانتے ہیں۔

کیا اس سے قبل، ان ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلوں کی خبر ان صحافیوں کو نہیں تھی جو کئی بار وہاں گئے اور مارے جانے والوں کی ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تک دیکھیں؟

کون نہیں جانتا کہ ’’اشتہارات‘‘ کے نام پر یہ بڑے بڑے ٹی وی چینلز حکمرانوں، بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں، سیٹھوں اور ریئل ایسٹیٹ ٹائکونز سے کروڑوں نہیں، اربوں روپے ہر سال وصول کرتے ہیں۔ تو پھر بھلا میڈیا ہاؤسز اور ٹی وی چینلز کے مالکان ’باؤلے‘ ہوئے ہیں کہ اس نظام کی چولیں ہلانے میں، لٹے پٹے عوام کی کوئی مدد کریں؟ کیا اپنے پیٹ پر بھی کسی نے لات ماری ہے؟