نوازشریف کے پاس ایک آخری موقع
حمزہ سلیم
نوازشریف کئی دن سے احتساب عدالت کر چکر لگا رہے ہیں، ریفرنسز کے حوالے سے میاں صاحب نے حتمی بیان بھی احتساب عدالت میں قلمبند کرا دیا ہے۔ گزشتہ روز پنجاب ہاؤس میں میاں نوازشریف نے وہ بیان جو احتساب عدالت میں جمع کرایا تھا، میڈیا کے سامنے پڑھ کر بھی سنایا۔ میاں محمد نوازشریف کے اس بیان کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ دو ہزار چودہ کے دھڑنے کے بعد اور یہ ریفرنسز، نتیجہ ہیں سابق آمر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے سے باز رہنے کے مشورے کو مسترد کرنے کے۔
اپنے بیان میں نوازشریف کا کہنا تھا کہ دو ہزار تیرہ کے آخر میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے کی پاداش میں آرٹیکل چھ کے تحت کاروائی کا آغاز ہوا تو پیغامات ملنا شروع ہو گئے کہ مشرف کا کچھ نہیں بگڑے گا، تمہارا گھیرا تنگ کردیا جائے گا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے دو ہزار بارہ میں سابق صدر آصف علی زرداری ایک قومی سیاسی رہنما کے ہمراہ ان سے ملنے آئے اور کہا کہ نومبر دو ہزار سات میں مشرف نے جو ایمرجنسی لگائی تھی اور اس حوالے سے جو اقدامات اٹھائے تھے یا احکامات جاری کئے تھے، پارلیمنٹ کے ذریعے مشرف کے ان احکامات کو تحفظ دلایا جائے۔ جس پر میں نے ان سے کہا کہ زرداری صاحب گزشتہ پیسٹھ سال سے ہم یہی کچھ کرتے آرہے ہیں۔
نوازشریف کا کہنا تھا کہ دو ہزار چودہ میں وہ اپنے دو رفقا کے ہمراہ بنی گالہ عمران خان سے ملنے گئے، یہ ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ ملاقات کے دوران عمران خان نے دھاندلی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ عمران خان صاحب نے کسی قسم کی احتجاجی تحریک کا بھی اشارہ نہیں کیا، لیکن جیسے جیسے مشرف کے مقدمے میں تیزی آئی، احتجاجی تحریک کی باتیں ہونے لگیں۔
اسی دوران لندن میں طاہر القادری اور عمران خان کے درمیان ملاقات ہوئی۔ اسی ملاقات کے بعد دھاندلی کو موضوع بنا کر اسلام آباد دھرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چودہ اگست دو ہزار چودہ کو شروع ہونے والے دھرنے چار ماہ تک جاری رہے۔ ان دھڑنوں کا مشترکہ مطالبہ یہ تھا کہ وزیر اعظم مستعفی ہو جائیں۔ مجھ پر لشکر کشی کر کے پیغام دیا گیا کہ مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
نوازشریف کا کہنا تھا کہ انہی دنوں ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کا پیغام ان تک پہنچایا گیا کہ میں مستعفی ہوجاؤں۔ یہ ممکن نہیں تو طویل رخصت پر چلا جاوں۔ اس پیغام سے مجھے دکھ اور رنج ہوا کہ پاکستان کا کیا حال کر دیا گیا ہے۔ عوام کے منتخب وزیر اعظم کی اتنی توقیر ہے کہ ایک ماتحت ادارے کا ملازم اپنے ملک کے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کا پیغام بھجوا رہا ہے۔ شاید ہی تیسری دنیا کہ کسی ملک میں اتنی افسوسناک صورتحال ہو۔ نوازشریف کی ان باتوں کا یہی مطلب ہے کہ انہیں مشرف کے خلاف کاروائی کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔
نوازشریف بنیادی طور پر کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر نہیں ناچے، اس لیے ان کو عدالت سے سزا دلوائی گئی۔ نواز شریف کے لب و لہجے سے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ سیاسی ٹمپریچر بڑھا رہے ہیں اور اپنے مزاحمتی بنایے کو مزید طاقتور کر رہے ہیں۔ نوازشریف نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ بے نظیر بھٹو کو کیوں شہید کیا گیا؟ کاش ایسی عدالت بھی ہوتی جو جرنیلوں سے پوچھتی کہ انہوں نے اس ملک کے آئین کو کیوں پامال کیا اور ججوں نے کیوں جرنیلوں کو آئینی تحفظ فراہم کیا؟
نواز شریف کا یہ بیان اہم ہے اور ججوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ سوال ضرور پوچھیں۔ اب سوال یہ ہے کہ نواز شریف اگر سچے نظریاتی ہو گئے ہیں تو انہیں پھر کھل کر میدان میں آنا ہوگا اور بڑے بڑے اعترافات کرنے ہوں گے۔ نوازشریف صاحب ایسی باتیں تب کرتے ہیں جب بندوقوں کا رخ ان کی طرف ہوتا ہے، لیکن ایسا زمانہ بھی تو تھا کہ جب بندوقیں ان کے کندھے پر رکھ کر چلائی جاتیں تھی۔
نواز شریف کو کھل کر عوام کو یہ بھی بتانا ہوگا اکہ وہ بہت ساری سیاسی سازشوں کا حصہ رہے ہیں۔انہیں بتانا چاہیئے کہ کیسے بے نظیر کی پہلی حکومت کو ختم کیا گیا ،نوازشریف اگر اس طرح کی باتیں عوام کو بتائیں گے تو اس سے عوام بھی باشعور ہوں گے اور انہیں بھی سیاسی فوائد حاصل ہوں گے ۔اس سے زاتی طور پر نواز شریف کا قد عوام میں بڑھے گا نوازشریف کے بیانیئے کی وجہ سے پنجاب کے عوام میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ لہر آگئی ہے ،پنجاب میں نوازشریف کا ووٹ بنک بڑھ رہا ہے ،اس لئے اب انہیں کھل کر کھڑا ہوجانا چاہیئے ۔الیکشن میں دو ماہ رہ گئے ہیں ،اور نوازشریف نے الیکشن کے حوالے سے اسٹریٹیجی بتا دی ہے کہ اب الیکشن اینٹی اسٹیبشلمںت اور پرو اسٹیبلشمنٹ فورسز کے نعرے پر ہوں گے ۔پاکستان کی سیاست میں یہ تبدیلی تو آئی ہے کہ ایک زمانے میں الیکشن اینٹی اور پرو بھٹو کے نعرے پر ہوتے تھے ،اس مرتبہ ہونے والے الیکشن اینٹی اور پرو اسٹیبشلمنٹ کے نعرے پر ہونے جارہے ہیں۔
نواز شریف کو اب کھل کر بتانا ہوگا کہ ٹھیک ہے کہ وہ اس وقت مظلوم ہیں لیکن وہ ظالموں کے ساتھی بھی رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ آہستہ آہستہ سب کچھ بتا رہے ہیں ،لیکن اب انہیں کھل کر سب کچھ عوام کو بتانا ہوگا ۔یہ نہیں چلے گا کہ نوازشریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں اور ان کے بھائی شہباز شریف پرو اسٹیبلشمنٹ ہیں ،اس سے عوام میں کنفیوژن پھیلے گی جس کا انہیں نقصان ہوگا۔نوازشریف کو اس تمام کھیل کے بارے میں بتانا ہوگا جو نوے سے کھیلا جارہا ہے اور اب دو ہزار اٹھارہ میں وہ کھیل اپنے عروج پر ہے۔ووٹرز نوازشریف کی باتیں سمجھ رہے ہیں ،یہ ووٹرز نوازشریف کے بیانیئے کو بھی سمجھ رہے ہیں،کھڑے ہوں اور بتائیں کہ انہیں بھی استعمال کیا گیا ۔ماضی کو سمجھیں اور ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کریں اور عوام کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کریں ۔یہ سب کچھ پاکستانی سیاست اور جمہوریت کے لئے بہت اچھا ہے۔ایسا کرنے سے پاکستانی سیاست میں نیا ٹرینڈ آئے گا ۔ایسا نواز شریف نے کردیا تو پھر کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتا ۔نوازشریف کو چاہیئے کہ وہ ماضی کہ حوالے سے تمام سرکلز توڑ ڈالیں ،نئی مثبت روایات قائم کریں ۔نوازشریف کے پاس اب کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے