نکل پٹھان، نکل مسلمان

 عاطف توقیر

ان دنوں یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے شدت پسندوں کی رائے سنیے تو وہ کچھ اس طرح ہوتی ہے۔ ہمیں مسلمانوں سے مسئلہ نہیں مگر جو مسلمان مہاجر یورپ پہنچ گئے ہیں، ان کی وجہ سے جرائم بڑھ گئے ہیں۔ اس لیے سارے مسلمان مہاجروں کو یورپ سے نکالنا چاہیے۔ یا ان مسلمانوں کے ملکوں میں تباہی کے ذمہ داری جرمن نہیں ہیں، ان کو جرمنی سے نکالنا چاہیے یا مسلمان دھیرے دھیرے یورپ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

ان دنوں بھارت میں کسی کٹر ہندو قوم پرست سے ملیے تو بھی لگ بھگ ایسی ہی دلیلیں ملیں گی۔ مسلمان ٹھیک لوگ نہیں ہوتے۔ عام مسلمانوں سے تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن شدت پسندوں کو پاکستان بھیجنا چاہیے، مسلمانوں نے اپنا ملک پاکستان لے لیا تو اب ہندوستان میں کیوں ہیں۔

پھر ایسے میں کوئی مسلمان بھارتی حکومت کی کسی پالیسی پر تنقید کرے، تو آواز آتی ہے، ہندوستان اتنا برا ہے تو پاکستان چلے جاؤ۔ 

یعنی تنقید حکومتی پالیسی پر ہو گی اور اسے پیش کیا جائے گا ریاست پر تنقید کے طور پر، اسی طرح پاکستان میں بھی ایک خاص ذہن کے لوگوں کی کچھ اسی طرز کے جملوں سے مرصع ہوتی ہیں۔ 

مزے کی بات ہے کہ ان تمام افراد کی دلیلوں کو غور سے دیکھیں تو بعض اوقات یہ لوگ ایک ہی جملے میں دو متضاد باتیں کرتے نظر آتے ہیں یا ایسی باتیں جو سننے میں تو بڑی خوف ناک لگتی ہیں مگر نہ صرف ان کا حقیقت سے دور دور کا واسطہ نہیں بلکہ ان پر غور کریں تو آپ ہنسی آنے لگے گی۔ مثال کے طور پر مسلمان یورپ میں اپنی آبادی بڑھا کر اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ 

پورے یورپ میں مسلمانوں کی کل تعداد مجموعی آبادی کا چھ فیصد ہے۔ ایسے میں بچے پیدا کر کے یورپ پر قبضے میں اسے کتنے سو سال درکار ہوں گے؟

یا عام مسلمانوں سے تو مسئلہ نہیں مگر مہاجر مسلمان نہیں چاہیں۔ ارے صاحب جن لوگوں کے آبائی ملک جنگوں کی نذر ہو گئے، جن کے خاندان تباہ ہو گئے، گھر ڈھ گئے، روزگار چھن گیا، وہ کہاں جائیں؟ 

عالمی معاہدے اور کنوینشنز اسی لیے تو ہیں کہ انسان اس کرے پر جہاں چاہے رہے یا کسی ملک میں کسی انسان کی زندگی کو خطرہ ہو تو وہ زندگی کے تحفظ کے لیے کسی دوسرے ملک میں پناہ لے لے۔

ان دنوں صوبہ سندھ میں پشتونوں اور سندھیوں کی کچھ ویڈیوز دیکھ کر جی بہت اداس ہوا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کسی بھی دوسرے صوبے کے مقابلے میں سندھ برداشت، محبت، اپنائیت اور خلوص کی ہزاروں برس پرانی تاریخ رکھتا ہے۔ 

مگر پچھلی کچھ دہائیوں میں اسی صوبے کو نفرت، تفریق اور تقسیم کے ایک تباہ کن منظر میں بدلا جا چکا ہے۔ اسی صوبے میں سندھ میں اگر رہنا ہے تو جئے سندھ کہنا ہے سے لے کر مہاجر خانہ بدوش یہاں سے چلے جائیں کے جملے بھی سنے گئے۔ سندھی مہاجر بھائی بھائی نسوار لُنگی کہاں سے آئے کے نعرے بھی لگے۔ 

یاد رکھیے نفرت، تقسیم اور تفریق کا فائدہ کبھی کسی عام انسان کو نہیں ہوتا۔ نفرت تقسیم اور تفریق کا فائدہ صرف اور صرف غاصب اور ظالم کو ہوتا ہے۔ اگر آپ کا نظریہ وہ مذہبی ہو، قومی ہو، نسلی ہو یا لسانی، آپ کو کسی بھی دوسرے انسان سے نفرت سکھا رہا ہے، آپ کو برتر اور دوسرے کو گھٹیا ثابت کر رہا ہے، آپ کو افضل اور دوسرے انسانوں کو کمتر گردان رہا ہے، تو سمجھ لیجیے، وہ ایک غلط نظریہ ہے۔ 

ابھی یہاں کچھ سندھی دوستوں کے یہ جملے بھی سنائی دیے کہ ان کو پشتونوں سے نہیں افغانوں سے مسئلہ ہے۔ 

لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ افغان پچھلے چالیس برسوں سے اسی ملک کا حصہ ہیں۔ ان کا ملک دوسرے ملکوں کی تباہ کن پالیسیوں اور مفادات کی بھینٹ چڑھ کے پچھلی نصف صدی سے جل کر راکھ کا ڈھیر بن چکا ہے۔ جن افراد کو آپ واپس جانے کا کہہ رہے ہیں، ان میں سے کئی ایسے ہیں، جن کے لیے ان کا اپنا ملک ہی اجنبی ہے۔ 

اگر کسی افغان نے کوئی جرم کیا ہے، پاکستان کا کوئی قانون توڑا ہے، تو ظاہر ہے اسے گرفتار کر کے قانون کے مطابق سزا دینا چاہیے بلکہ اسی طرح جیسے کسی مجرم سندھی یا پنجابی یا مہاجر کو، مگر یوں تمام افغانوں کو گالی دینا ایک نہایت غیرانسانی رویہ ہے۔ 

قوم پسندی بری شے نہیں۔ اپنے جیسی زبان بولنے والوں اور اپنی ثقافت سانجھی کرنے والوں کے ساتھ تعلق محسوس کرنا، ان کی بہبود اور ترقی کا سوچنا، یا اپنی زمین پر زیادہ اختیارات کا مطالبہ کرنا ہر گز غلط کام نہیں، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ افراد جو آپ کی زبان نہیں بولتے، یا آپ سے ثقافتی یا مذہبی یا مسلکی طور پر مختلف ہیں، آپ ان سے نفرت کرنے لگیں۔