نیاپاکستان اور گلگت بلتستان کی سپریم کوٹ سے امیدیں
اقبال سالک
گلگت بلتستان کے ستر سالہ محرومیوں کا معاملہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں انصاف کے خاطر چکر کاٹ رہا ہے۔
پیر کو کیس کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے سرتاج عزیز کمیٹی کے سفارشات پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک آدمی کی رپورٹ پر ہم چل پڑے۔ یہ لوگ پاکستان کے پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں اور مراعات بھی لیتے ہیں۔ انڈیا نے دوسری جانب عبوری اسٹیٹس کا لفظ آئین میں لکھ دیا ہے۔گلگت بلتستان کے لوگ خود کو پاکستانی تصور کرتے ہیں اور کیا چاہیے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر انڈیا مقبوضہ کشمیر کوعبوری اسٹیٹس دے سکتا ہے تو ہم گلگت بلتستان کو عبوری اسٹیٹس کیوں نہیں دے سکتے۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ انڈیا کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کے لیے آرٹیکل 370 ختم کرنے کا سوچ رہا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال بولے گلگت بلتستان کے لوگوں کی پاکستان سے محبت کو بین الاقوامی طور پر اجاگر کرنے کی ضروت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر حکومت سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ کو تسلیم کرے تو پھر عدلیہ کا کردار نہیں رہے گا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے مزید مہلت کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سے کہیں باقی سارا کام چھوڑ دیں یہ بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس اور جج صاحباں کے ریماکس بالکل حق اور سچ پر مبنی ہیں۔
اگر بھارت اپنے زیرانتظام کشمیر کو عبوری اسٹیٹس دےسکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں دے سکتا ہے؟ یہی مطالبہ گلگت بلتستان کے عوام کا بھی رہا ہے جس میں انہوں نے ہمشہ مطالبہ کیا ہے اگر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر متاثر ہوتا ہے، تو ہمیں آزاد کشمیر طرز یا مقبوضہ کشمیر طرز کا سیٹ آپ دیا جائے مگر یہ مطالبات کرنے والوں کو غدار کہہ کر گرفتار کیا گیا۔ ان کو جیلوں میں بند کیا گیا۔آپ حیدر شاہ رضوی کی ہی مثال لیں۔
مرحوم کی تقریر آج بھی میرے لیپ ٹاپ میں محفوظ ہے جس میں ان کا کہنا ہے ریاست پاکستان گلگت بلستان کو اپنا صوبہ نہیں بنا سکتی اس لئے وہ ہمیں ایک خود مختار سیٹ آپ دے دیں، جس میں ہمارا اپنا صدر ہو اپنا وزیر اعظم ہو اپنا عدالتی نظام ہو مگر انہی مطالبات کرنے کی پاداش میں ان کے آخری سانسوں تک ان کا پیچھا کیا گیا۔
مگر یہی ریماکس سپریم کوٹ کے ججز صاحبان سے سن کر عوام میں اب نئی امید کی کرن پیدا ہوگئی ہے اور سوچ رہے ہیں کہ اب عدالت ہماری 70 سالہ محرومی کا ازلہ کر ے گی۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر امجد ایڈوکیٹ کا کہناہے پی ٹی آئی کی وفاقی قیادت اور صوبائی قیادت کا کڑا امتحان شروع ہوگیا ہے سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کو یہ احکامات جاری کر دیے ہیں وہ 14 دن کے اندر سر تاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی نے جو سفارشات مرتب کئے تھے انہی سفارشات کے مطابق گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنا کر سنیٹ ، نیشنل اسمبلی اور دیگر وفاقی اداروں میں نمایندگی دی جائے سابقہ حکومت نے اپنی بنائی ہوئی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں کر کے صرف ایک آرڈر دیا لیکن اب تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا امتحان شروع ہوا ہے کہ وہ اس معاملے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو کیا جواب دینگے۔
انہوں نے کہا کہ حفیظ الرحمن اس وقت سرتاج عزیز کمیٹی کے سفارشات پر اپنے وفاقی آقاوں کے کہنے پر خاموشی اختیار کرنے کے بعد ایک آرڈر لیکر گلگت بلتستان آ گئے مگر آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے 14 دن میں سفارشات مرتب کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں اگر وفاقی حکومت اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے گی تو اس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان اپنا فیصلہ سنائے گا۔موصوف کی ان باتوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے وزیر اعلی حفیظ الرحمن صاحب اس اہم ایشو پر قوم کی صیح ترجمانی نہیں کر سکیں اور اس بات میں بھی وزن ہے اب وفاقی حکومت کی بھی اہم امتحان شروع ہوا ہیں۔ اب دیکھنا ہے عمران خان کی حکومت سرتاج عزیز کمیٹی کے سفارشات پر کیا موقف اختیار کرتی ہے وہ بھی سابقہ حکومتوں کی طرح بہانے بناتے ہے یا گلگت بلتستان کو خود مختار سیٹ دینے کی سپریم کوٹ مین سفارش کرتے ہے بہرحال عوام نے سپریم کوٹ اور نیا پاکستان دونوں سے امید یں وابستہ کر رکھے ہے امید ہے اب کہ بار عوام کے امنگوں کے مطابق کوئی سیٹ آپ مل جائے کیونکہ عوام نیے پاکستان اور سپریم کوٹ سے 70سالہ محرمیوں کی داستان ختم کرنے کی امیدیں رکھتے ہیں۔