نیا پاکستان یا طالبانی پاکستان؟
عاطف توقیر
خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ایک تازہ نوٹیفیکشن میں تمام ’مرد‘ وزراء، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور حکومتی عہدیداروں کی طالبات کے اسکولوں میں بہ طور چیف گیسٹ شرکت پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اس بابت منطق یہ پیش کی گئی ہے کہ طالبات کو چوں کہ جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے معاملات کا سامنا ہے، اس لیے یہ پابندی درست ہے۔ تاہم اس بابت کچھ حقائق کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔
حالیہ کچھ عرصے میں نیے پاکستان میں پے در پے ایسے معاملات دیکھنے کو مل رہے ہیں، جو قدامت پسندی کی جہالت میں مبتلا ہمارے معاشرے کو مزید اندھیروں میں دھکیلنے سے عبارت ہیں اور یہ تازہ اقدام بیماری کے علاج کی بجائے پین کِلر دے کر یہ سمجھ لینے کا اظہاریہ ہے کہ بیماری ختم ہو گئی۔
ابھی اس بابت میں نے ایک ٹوئٹ کیا، تو ان دنوں ’تحریک انصاف‘ اور ’نیے پاکستان‘ کی محبت میں مبتلا کچھ دوستوں نے فرمایا کہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ میں یہ اقدام تو قابل ستائش ہونا چاہیے اس پر آپ کو مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ بچیوں کو تحفظ دینے کے سلسلے میں یہ کوئی سنجیدہ عمل نہیں ہے۔
ایک سادہ سا اصول ہے کہ جنسی ہراسی کے معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اس میں ملوث افراد کو سزا دی جائے۔ ان محرکات کا خاتمہ کیا جائے جو اس کی وجہ بن رہے ہیں اور رفتہ رفتہ معاشرے کی تطہیر کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کی جنسی ہراسی کی بنیادی وجہ مردوں اور خواتین کا اختلاط نہیں بلکہ ان کے درمیان دیواریں کھڑی کرنا ہے۔ اس کی زندہ مثال یورپ ہے۔ جہاں مرد اور خواتین ایک ساتھ کام کرتے ہیں تاہم یہاں ایسا کوئی واقعہ پیش آئے، تو وہ ایک بڑی خبر ہوتا ہے۔
کولون میں نئے سال کے آغاز کے موقع پر جب خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات پیش آئے، تو جرمنی دھچکے کا شکار ہو گیا اور تفتیش پر معلوم ہوا کہ ان واقعات میں ملوث افراد کو تعلق مراکش، تیونس اور دیگر شمالی افریقی ’مسلم‘ ممالک سے تھا۔
میری والدہ کی عمر ستر برس سے زیادہ ہے۔ وہ کوئی مغربی لباس نہیں پہنتی اور گھر سے باہر نکلتے ہوئے ایک بھاری چادر ان کے وجود پر ہوتی ہے، مگر وہ بتاتی ہیں کہ انہیں اس عمر میں بھی گھٹیا جملے کسنے والے ’بچوں‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسری جانب ’کافروں‘ کے معاشرے جرمنی میں پاکستان اور دیگر ’اسلامی‘ ممالک سے آنے والی لڑکیاں ہاسٹلز میں رہتی ہیں، یونیورسٹی یا کالج پڑھنے جاتی ہیں، کام کرتی ہیں، لباس بھی مغربی پہن رکھا ہوتا ہے، مگر مجال ہے کہ کوئی آواز کسے یا چھونے کی کوشش کرے۔
پاکستانی معاشرے میں خواتین پر ان جنسی حملوں کی وجہ نہ لباس ہے اور نہ ہی اختلاط بلکہ بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ بنیادی تربیت ہی سے عاری ہے، جہاں خواتین کو انسان کی بجائے ’اشیاء‘ سمجھا جاتا ہے حتیٰ کہ خود بچیوں کو بچپن ہی سے یہ تربیت دی جاتی ہے کہ وہ شاید کوئی چیز ہیں۔ معاشرے میں بے راہ روی کا منبع کم علمی، دماغی ابتری اور تربیت کا فقدان ہوتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے کو ایک ایسے جنگل زدہ رویے میں تبدیل کر چکے ہیں، جہاں پر ہر وہ شخص جسے جو بھی طاقت حاصل ہے، وہ اس کا ناجائز استعمال کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ سڑک پر کھڑے کسی مرد کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ جسمانی طور پر کسی خاتون سے زیادہ طاقت ور ہے، اس لیے اسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ اس خاتون کے ساتھ جو چاہے کرے۔
پھر ایسے میں کچھ احباب خواتین کے لباس کا نعرہ لگاتے ہوئے، یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ خواتین کا جدید یا مغربی لباس اس انداز کے واقعات کا سبب ہے۔ یعنی اپنے ساتھ پیش آنے والے ایسے کسی واقعے کا مجرم بھی کوئی مرد نہیں وہ خود ہی ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جس معاشرے میں ایک سال کی بچی سے لے کر ستر سال ہی خاتون کوئی محفوظ نہ ہو۔ مسجد اور مدرسے سے لے کر اسکول اور جامعات تک ہماری بچیاں ہر ہر مرد کی نگاہوں سے چھلنی ہوتی ہوں وہاں مردوں کا مسئلہ خواتین کا لباس نہیں جسم ہوتا ہے۔ لباس کوئی خاتون کتنا بھی پہن لے یا کسی خاتون پر کپڑے کے کتنے ہی تھان پھینک لیے جائیں، شعور اور عقل پر پردہ پڑ جائے، تو لباس ایک غیر ضروری چیز بن جاتا ہے۔ پنجاب کی زینب کا لباس مغربی نہیں تھا، جب کہ اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے اور بہیمانہ انداز سے قتل کرنے والا نعت بھی پڑتا تھا، مگر نہ لباس اسے اس بربریت سے روک سکا اور نہ مذہب۔
سندھ کی فاطمہ ہو یا کسی اور علاقے کی کوئی بچی۔ ہماری بچیوں کو جب تک اشیاء سمجھا جائے گا، تب تک ہم فقط خواتین کے گرد دیواریں کھڑی کر کے تحفظ کے نعرے لگائیں گے۔ رفتہ رفتہ یہ معاشرہ اس طرف جا رہا ہے، جہاں بچیوں کو پیدائش کے بعد گھر کی چار دیواریوں میں بند کر دیا جائے گا، یہ الگ بات ہے کہ ہماری بچیاں اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہے۔
خیبر پختونخوا کی دوتہائی اکثریت والی حکومت کا یہ اقدام اس لحاظ سے صریحاﹰ غلط ہے کہ وہ اس نیے اقدام سے لڑکیوں کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ وہ اپنے ملک اور صوبے کے عوامی نمائندوں ہی سے محفوظ نہیں ہیں۔ یعنی اس ملک میں جرم کے خاتمے کے لیے مجرموں کو سزا دینے کی بجائے یہ کلچر پیدا کیا جائے گا کہ ہم بچیوں کے گرد پابندیوں کی دیواریں قائم کرتے چلے جائیں۔
جب تک کوئی معاشرہ مسئلے کا حل ظالم کو روکنے کی بجائے کم زور کو علیحدہ کرنے کی بنیاد پر چلنے کی کوشش کرے، سمجھ لیجیے کہ وہ تاریک گزرگاہوں کا مسافر ہے اور اسے ابھی مزید بھیانک رات سے گزرنا ہے۔
وہ وہ بدنصیب لوگ ہیں، جو ایک طرف طالبان کو شکست دینے کے دعوے کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنی ریاست کو رفتہ رفتہ ٹھیک اسی سمت میں لے جا رہے ہیں جو طالبان کی خواہش تھی۔ یعنی ایک طرف یہ دعویٰ کا ہم طالبان کو خود پر مسلط نہیں ہونے دیں گے اور دوسری طرف ہم خود طالبان میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ معاشرہ ٹھیک اسی راہ پر ہے، جب لوگ سڑکوں پر سنگسار ہوں گے اور ریاست روکنے کی بجائے تالیاں بجایا کرے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لڑکیوں کو ’تحفظ‘ دینے کے لیے ہماری حکومت ایک دن لڑکیوں کی تعلیم ہی پر پابندی عائد کر دے۔