ٹوٹے پھوٹے خیالات
وقاص احمد
آوارہ خیالی بھی ایک مذیدار چیز ہے۔ آپ ایک ہی وقت میں بہت سے موضوعات کے درمیان ایسے شٹل کارک بنتے ہیں جیسے ٹیلی پورٹ ہو رہے ہوں۔ ایسی ہی کچھ آوارہ خیالیاں حاضر خدمت ہیں۔
بگڑی ہوئی عادتیں
“نا کرو اس کی عادت خراب ہو جائے گی۔” یہ ایک عمومی جملہ ہے جو آپ کسی نوزائیدہ بچے کے ماں باپ سے اکثر سنتے ہیں۔ مثلاً ہر وقت گود میں مت اٹھاؤ کہیں گود ہی کی عادت نا پڑ جائے۔ جب بھی روئے فوراً چوسنی منہ میں مت ٹھونسو کہیں دانتوں کی پوزیشن خراب نا ہو جائے۔ بچے کو پچکارنے کے لیے موبائل اس کے ہاتھ میں مت دو کہیں اس کی آنکھیں خراب نا ہو جائیں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ والدین کہ یہ تمام خدشات بالکل درست بھی ہیں کہ آپ یہ گود، یہ چوسنی یہ موبائل کب تک ان کو مہیا کر سکتے ہیں؟ اب پاکستان میں بھی ایک نوزائیدہ نسل موجود ہے۔ اس نسل کو آپ نے کرپشن کی لوریاں، منی لانڈرنگ کے جھنجھنے تھما تھما کر ان کی عادتیں بگاڑ دی ہیں۔
آپ نے انہیں عادی کر دیا ہے کہ ہر دوسرے جمعے ان کی محبوب عدالتوں سے ان کے مخالفوں کے حق میں فیصلے آئیں۔ آپ نے انہیں اس چوسنی کا عادی کر دیا ہے کہ ان کے مخالفین جیل میں آتے جاتے دکھائی دیتے رہیں۔ آپ نے ان کے ہاتھ موبائل فون بھی تھما دیے ہیں جس پر چیپ جسٹس کے ریمارکس اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹویٹس کی لوری نما نظمیں چلتی رہتی ہیں۔ مگر کب تک؟ نا یہ چوسنیاں ساری زندگی ان کو دی جا سکتی ہیں، نا ان ریمارکس اور ٹویٹوں والوں نے ساری زندگی ان عہدوں پر رہنا ہیں۔ تو پھر کیا ہوگا جب کسی بھی جمعے کوئی فیصلہ ان کی مرضی کا نہیں آئے گا؟ کیا ہو گا جب کرپشن کی ہر لوری کا انجام ایون فیلڈ ریفرنس والا ہوگا۔ کیا ہوگا جب یہ اپنے موبائل کھولیں گے تو اس پر چیپ جسٹس کے فلمی ریمارکس کی جگہ قانون کا حوالہ اور سیاسی ٹویٹس کی جگہ کوئی پروفیشنل فوجی بیٹھا ہوگا؟ تو حضور ان کی عادتیں مت بگاڑیں، مسئلہ آپ کو ہی پڑے گا۔ ایسی بگڑی اولاد اپنے ماں باپ کو ہی گھر سے باہر بدنام کرواتی ہے اور باہر والوں کا کیا بھروسہ، ان کو تو بگڑے بچوں کا علاج بس ڈنڈے سے ہی کرنا آتا ہے۔
گدھے کا بچہ
یہ گنجا بدمعاش کون ہے؟
یہ ایک پیلا صحافی ہے۔
پیلا صحافی کیا ہوتا ہے؟
پیلا صحافی پیسے یا دیگر مراعات کے لالچ میں اپنے اصل فرائض کو پس پشت ڈال کر کسی فرد، کسی گروہ یا کسی ادارے کے گن گاتا ہے اور اس کے مخالفین پر کیچڑ اچھالتا ہے۔
تو یہ پیلا صحافی کس کے گن گاتا ہے؟
یہ اپنے نیازی صاحب کے جز وقتی اور حوالداروں کے کل وقتی گن گاتا ہے۔
تو اس کے عوض اسے کیا ملتا ہے؟
اس کے عوض اس کو اضافی پیسوں کے علاوہ اس بات کا لائسنس ملتا ہے کہ یہ پولیس افسران کو فون کر کے دھمکیاں لگاتا ہے اور گالی دیتا ہے کہ فلاں ملزم کو چھوڑ دو کیونکہ وہ اس کے “زرائع” کے مطابق بے گناہ ہے ورنہ انجام بھگتنے کو تیار رہو۔
تو پھر اس بدمعاش صحافی کو کیا سزا ملنی چاہیے؟
اس کو اس کے ٹی وی پروگرام کے دوران پولیس ریڈ کر کے اٹھایا جائے اور لائیو ٹی وی پر اس کے گنجے سر پر جوتے مارتے ہوئے گھسیٹ کر پولیس وین میں ڈالا جائے اور راستے میں اس کی بدمعاشی اور اکٹرفوں کا شافی علاج کرتے ہوئے تھانے لے جا کر اس پر کار سرکار میں مداخلت اور سرکاری ملازم کو دھمکیاں لگانے کا کیس بنا کر اسے حوالات میں بند کر دیا جائے۔
متفق؟ متفق۔
لاشوں کی سیاست
“یہ گندے، بے شرم، بے غیرت اور غلیظ سیاست دان لاشیں بیچ کر سیاست کرتے ہیں”. تازہ تازہ بھرتی ہوئے ایک خوب رو، بی اے پاس چھوٹے حوالدار صاحب نے انتہائی نخوت سے کہا۔
پوچھنے والے نے پوچھا کہ جناب وہ کیسے؟
تو چھوٹے حوالدار صاحب نے فرمایا کہ دیکھو تو سندھی قوم پرست اپنے لیڈران کی لاشوں پر سیاست کرتے ہیں، بلوچی اپنے لیڈران کی، پختون اپنے لیڈران کی، مہاجر اپنی برادری کی اور بھٹو خاندان اپنی لاشوں کی۔
محفل میں بیٹھے کسی سر پھرے نے کہا “جناب اگر آپ کو لگتا ہے کہ ان کی سیاست لاشیں بیچ کر چلتی ہے تو آپ ان کو لاشیں دینا بند کیوں نہیں کر دیتے؟”
چھوٹے حوالدار صاحب گہرے طنز کو نا سمجھتے ہوئے بولے “کیا مطلب آپ کا؟”
سر پھرا بولا “اس کا مطلب بس اتنا عرض کرنا ہے کہ اپنے پیاروں کی زندگیاں گنوا کر ان میں سے صرف ایک پارٹی کے حصے ایک محدود سا لولا لنگڑا اقتدار آیا، مگر آپ لوگ تو اپنے ادارے کی لاشوں کو سر بازار بیچ کر پچھلے 70 سال بلا شرکت غیرے حکومت اور کھربوں کا کاروبار چمکا رہے ہیں, تو زیادہ بے شرم اور بے غیرت کون ہوا؟”
کیلے کا چھلکا
ایک سردار جی فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے ایک کیلے کے چھلکے پر سے پھسلے اور چوٹ لگوا لی، اگلے روز اسی جگہ پھر ایک نئے کیلے کے چھلکے سے پھسلے اور پھر چوٹ لگوا لی۔ یہ قصہ کوئی ایک ہفتہ چلتا رہا۔ آٹھویں روز سردار جی نے اسی جگہ پر پھر ایک کیلے کا چھلکا پڑا دیکھا تو سر پر ہاتھ مار کر بولے “لو جی یہ کیا بات ہوئی، آج پھر پھسلنا پڑے گا”۔
آل یوتھ کو 2016 کے اوائل سے ہر روز یا ہر ہفتے یا ہر مہینے ایک کیلے کے چھلکے سے واسطہ پڑتا ہے۔ جس سے پھسل کر یہ اوندھے منہ گرتے ہیں۔ اب وہ پانامہ کیس کا اقامے پر ڈراپ سین ہو یا پھر جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ سے کرپشن کے الزامات کی بریت، خود ساختہ ڈان لیکس ہوں، ختم نبوت کے نام پر جھوٹا ڈرامہ ہو، 300 ارب روپے کی کرپشن کے بے سروپا الزام ہوں، بھارت کو 5 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کے کیس میں چورمین نیب کی خواری ہو، نیب عدالت کی دی سزا کی ہائیکورٹ سے معطلی ہو، صاف پانی کیس ہو یا آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل کا ڈراپ سین۔ آل یوتھ ایک ہی جگہ پر پڑے کیلے کے چھلکے سے روز گرتے ہیں اور ہڈیاں تڑواتے ہیں۔ کل ان میں سے انصافیا واشنگٹن پوسٹ والی خبر پر بنا معلوت ایسے ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا جیسے سردار جی کی طرح انتہائی بے بسی سے کہہ رہا ہو “لو اب اس چھلکے سے بھی پھسلنا پڑے گا؟”