پاکستانی اور بھارتی حکمران سن لیں!
ذوالفقار احمد ایڈووکیٹ
ہمیں تو پچھلے 73 سال سے پڑوسی ملک پاکستان کے حکمرانوں، بالادست طاقتوں کی جموں وکشمیر کے بارے میں پالیسی کا بخوبی علم ہے، کہ کیسے اکتوبر 1947 سے لےکر تاحال کشمیری عوام کے جذبات سے کھلواڑ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے قدرتی و معدنی وسائل اور افرادی قوت کا بے دردی سے استحصال بھی کیا گیا ہے۔ جموں وکشمیر کو غلام رکھنے کے لیئے کیا کیا سازشوں کے تانے بانے بنے گئے۔ معصوم و نہتے کشمیریوں کا قتل عام کروایا گیا، ہم ہر ایک عمل کا ادراک رکھتے ہیں۔ پی این اے اور جے کے پی این پی، کی لیڈرشپ بارہا اس حقیقت کا اظہار کر چکی ہے کہ دہلی و اسلام آباد کا ہزار معاملات پر آپسی اختلاف سہی لیکن جموں وکشمیر کے عوام کو تقسیم و غلام رکھنے پر دونوں قابض قوتوں کا مکمل اتفاق ہے۔
بھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کےساتھ محبت و الحاق کا دم بھرنے والے دہلی نواز سیاسی مفاد پرست بونے سیاستدانوں کی پانچ اگست 2019 کے دہلی حکومت کے جاری کردہ آرڈیننس سے خاصی حد تک آنکھیں کھل چکی ہیں، کیونکہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 میں 35 A کے تحت جموں کشمیر کو جو اہم و الگ تھلگ حیثیت حاصل تھی جس کے گھمنڈ و تکبر کے گمان میں وہ دھواں دار تقاریر اور بلند و بانگ دعوے کیا کرتے تھے وہ ان کے آقا نامدار نے یک جنبش قلمُ پوری ریاست کو براہ راست دہلی کے ماتحت کر ڈالا ہے۔ جس غلام نے بھی ذرا برابر چوں چرا کی وہ آج 10 ماہ گزرنے کے بعد بھی یا تو مختلف جیلوں میں بند ہیں یا پھر اپنے ہی گھر میں دہلی سرکار کے مفادات کا تحفظ کرنے کے صلے میں اور کرونا کے لاک ڈاؤن کی آڑ میں قید و بند کا دہرا مزا چکھنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ یہ مظفرآباد کے وظیفہ خور، دلال، کاسئہ لیس، ڈھائی اضلاع کے بے اختیار، بے بس و بے کس حکمرانوں کےلیئے نوشتہ دیوار ہے، کاش کہ پڑھ پائیں۔ اب تو 14 ترمیم کے مسودہ میں پاکستان کی توسیع پسند پالیسی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ اگرچہ 22 اکتوبر 1947 کے انسانیت سوز واقعات کو بدترین سازشی حکمت عملی بروئے کار لاتے ہوئے لہولہان کرنے اور جموں کشمیر کو تقسیم کرنے کے گھناونے عمل سے لےکر 28 اپریل 1949 کے معاہدہ کراچی تک کشمیری عوام کے مکمل آزادی حق کو سلب کرنے اور اسے محض اپنے ہی نہیں بلکہ بھارت کیساتھ الحاق سے بھی مشروط کر دیا گیا ہے۔
“یو این کمیشن فار جموں کشمیر”. کا نام تبدیل کروا کر بھارت کے ساتھ ملی بھگت سے اس کا نام “یو این کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان” رکھوایا گیا ہے۔ جموں وکشمیر کے دریاؤں کی نسبت سندھ طاس معاہدہ کرتے ہوئے بھارت کے قبضہ کو قانونی و جائز حیثیت کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا گیا۔ تاشقند معاہدہ، شملہ معاہدہ، لاہور و آگرہ میں مختلف اوقات میں ہونے والے معاہدوں میں شملہ معاہدہ ہی کی توثیق کی جاتی رہی۔ بڑے بھائی و خود ساختہ وکیل کے دعویدار نے ہر دور میں دہلی سرکار کو جموں کشمیر پر اپنا قبضہ مزیدمستحکم کرنے کے راستوں سے آشنا کروایا ہے۔ مستقبل تو پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے حکمرانوں کا بھی وہی ہے جو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آج دہلی کے وفاداروں کا ہو چکا ہے۔
دنیا بھر کی تاریخ قوموں کے عروج و زوال،غلامی و آزادی اور آقا و غلام کے رشتوں، رویوں، جبرو بربریت، تشدد و قتل عام سے بھری پڑی ہے۔ پھر بھی آج کا باشعور، صاحب علم، با ضمیر، باکردار، بااصول، نظریات کا حامل اور آزادی پسند انسان بھی شعوری طور پر غلامی کی ان بدبخت زنجیروں کی عبادت کرنے اور انہیں پوجنے کا ہی متمنی ہے۔ نہ جانے تاریخ کس دوراہے پر کھڑی ہے۔ دہلی و اسلام آباد کے عارضی حکمرانو! آپ کے تمام تر معاہدوں، آرڈیننس، شیڈولز، ہمیں غلام رکھنے کےلیئے قائم کیئے گئے ہیں، سازشی ایکٹ و قوانین، ہماری آزادی و حقوق پر لگائی گئی پابندیوں او قدغن کو ہم جوتے کی نوک پر سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ بھارت کے آزاد ہونے اور پاکستان کے بننے سے قبل بھی جموں کشمیر ایک آزاد ریاست تھی، جسے آپ دونوں کے آئین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس مسئلہ کو عالمی برادری بھی 73 سالوں سے تسلیم کر رہی ہے۔ دہلی و اسلام آباد کے عارضی حکمران آرڈیننس جاری کر کے، ایکٹ بنا کرہماری قومی آزادی کے مسئلہ سے بین الاقوامی طور پر فرار نہیں پا سکتے ہیں۔
انقلابی ساتھیوں اور آزادی پسندو! گبھرانا نہیں! ڈرنا ہر گز نہیں! بکنا نہیں! فکری مغالطوں میں بھی پڑنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے! ذرا برابر ابہام کو اپنے نزدیک پھٹکنے نہ دیں! کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ جموں وکشمیر 84471 مربع میل پر پھیلا ہوا ہمارا خوبصورت وطن، پونے دو کروڑ انسانوں پر مشتمل، جس کی مسلمہ تاریخ ہے، تہذیب و تمدن ہے، وسائل سے مالا مال ہے۔ اس لیئے اگر دیگر قوموں کو اپنی آزادی عزیز ہے تو ان کو ببانگ دہل پیغام ہے کہ ہمیں اپنی آزادی عزیز ترین ہے۔ دونوں ممالک جموں وکشمیر پر ناجائز قابض ہیں۔ جس کا خمیازہ نہ صرف جموں وکشمیر کے عوام بھگت رہے ہیں بلکہ بھارت و پاکستان کے عوام ہم سے بھی زیادہ بھگتنے پر مجبور ہیں۔ مستقبل قریب میں نہ جانے مسئلہ جموں وکشمیر کی بدولت جنوبی ایشیا میں انسانیت کا کتنا قتل عام ہو گا اورسامراجی طاقتوں کا تیار کردہ نقشہ کس طرز کا ہو گا کسے معلوم؟ میں بحثیت چئیرمین پی این اے و چئیرمین جے کے پی این پی، مظفرآباد کے حکمرانوں اور ان کے آقا، اسلام آباد کے حکمرانوں کو بروقت متنبہ کرتا ہوں کہ ہم پہلے ہی ایکٹ 1974 کو غلامی کی دستاویز سمجھتے ہیں۔ اسے ایک آقا کا حکم تصور کرتے ہیں۔ جس کی تعمیل کسی بھی صورت ناممکن ہے۔ چہ جائیکہ آپ اس کا مزید نین و نقشہ بگاڑ کر ہم پر اسے مسلط کرو۔ ہم ایک بار نہیں بلکہ قبضہ کو مزید مستحکم کرنے کی خاطر طرح طرح کے ایکٹ، دہلی و اسلام آباد آرڈیننس کو سرے سے مسترد کرتے ہیں۔
یہ سب کچھ دہلی و اسلام آباد کے حکمرانوں کا ہی کیا دھرا ہے۔ ایک پیغام میں بحیثیت قانون دان، پاکستانی وزیر فروغ نسیم وزیرقانون صاحب کو بھی دینا چاہتا ہوں اور مناظرہ کا بھی چیلنج کرتا ہوں۔ یہ اب ان پرمنحصر ہے کہ وہ مظفرآباد میں یہ مناظرہ رکھیں یا اسلام آباد و کراچی میں، کہ جناب بیرسٹر ایٹ لاء جو ہوتا ہے وہ انٹرنیشنل لاء پر ڈگری حاصل کرتا ہے۔ انٹرنیشنل لاء میں UN کا چارٹر۔ قوموں کی آزادی کے اصول۔ قوم کے لوازمات و دیگر تمام تر قواعد و ضوابط کی تشریحات موجود ہیں لیکن اپ نے ان تمام کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک قوم کی آزادی کے مسئلہ کو سرعام صلیب پر چڑھاتے ہوئے اپنی نوکری تو شائد پکی کی ہو مگر آپ نے اپنے پیشے، تعلیم، بار ایٹ لاء، بین الااقوامی روایات اور قومی آزادی کی تحریکوں سے نابلدگی کا ثبوت دیا ہے۔