پاکستانی پالیسیاں اور مستقبل میں کشمیرکے لیے نقصانات
سرداراشفاق عباسی
بھارت نے پاکستان کے حصے کے پانی پر کشن گنگا ڈیم بنا لیا ہے اور چند ہی دنوں میں مودی اس کا باقاعدہ افتتاح کرنے والے ہیں ۔ پانی کی قلت کے بد ترین بحران سے دوچار پاکستان ایک نئے عذاب سے دوچار ہونے جا رہا ہے مگر زندہ اور پائندہ قوم میں کسی کو پرواہ ہی نہیں ہے ۔ سیاسی قیادت روز ایک نیا تماشا لگا دیتی ہے اور میڈیا اس پر ڈگڈگی بجاتے ہوئے دن گزار دیتا ہے۔ غیر سنجیدگی اور خوفناک سطحیت کے اس ماحول میں کسی کو احساس ہی نہیں پاکستان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے ۔
کشن گنگا ڈیم کی تکمیل ایک انتہائی خوفناک منظر نامہ ہے ۔ بھارت میں جس دریا کو کشن گنگا کہتے ہیں پاکستانی زیر کنٹرول کشمیر میں وہ دریائے نیلم کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ دریا کشمیر کی خوبصورت وادی نیلم سے ہوتا ہوا مظفرآباد کے قریب دومیل کے مقام پر دریائے جہلم میں شامل ہو جاتا ہے۔ اب بھارت نے 22 کلومیٹر سرنگ بنا کر اس کا رخ موڑ دیا ہے ۔ اب یہ وادی نیلم میں نہیں بہے گا ۔ کشن گنا پراجیکٹ کے لیے اسے وولر جھیل کے ذریعے بارہ مولا کے مقام پر انڈین زیرانتظام کشمیر ہی میں دریائے جہلم میں ڈال دیا گیاہے ۔ یعنی اس کے قدرتی بہاؤ میں فرق ڈال دیا گیا ہے ۔ اب صرف کتابوں میں ملے گا کہ وادی نیلم میں ایک دریا بھی بہتا تھا جسے دریائے نیلم کہتے تھے۔
ذرا غور کیجیے۔ وادی نیلم سے دریائے نیلم ہی روٹھ جائے، اس کا رخ بدل دیا جائے تو یہ وادی کیا منظر پیش کرے گی؟ اس کا تو سارا حسن اجڑ جائے گا ۔ ہنستی بستی وادی اجاڑ اور بیابان ہو جائے گی۔ وادی نیلم میں ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جن کا رزق کے اسباب دریائے نیلم سے ہی وابستہ ھے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ چاول وغیرہ اگاتے ہیں ، ان کی چکیاں اسی کے پانی سے چلتی ہیں ۔ یہ دریا ان کے لے زندگی کا پیغام ہے ۔ یاد رہے کہ وادی نیلم میں مون سون کی بارشیں نہیں ہوتیں ۔ اسے ’’ نان مون سون‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس وادی کا 41000 ایکڑ رقبہ دریائے نیلم سے سیراب ہوتا ہے ۔
جہاں سے دریا کا رخ بدلا گیا ہے وہاں سے دو میل تک 230 کلومیٹر کا علاقہ ہے۔ اڑھائی سو گاؤں پر مشتمل یہ سارا علاقہ ذرا تصور کیجیے کہ چند دنوں بعد ایک بہتے دریا سے اچانک محروم ہو جائے گا ۔ بارہ سو ٹن ٹراؤٹ مچھلی سالانہ اس علاقے سے پکڑ کر مقامی لوگ لوکل مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں ۔ یہ بھی ختم ہو جائے گی ۔ جنگلات کا مستقبل بھی ایک سوالیہ نشان ہو گا ۔ یہی نہیں پاکستان کے نیلم جہلم پراجیکٹ کا مستقبل بھی مخدوش ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ ہمارا 27 فیصد پانی کم ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی پیداواری صلاحیت میں 20 فیصد کمی آ جائے گی ۔ اور اگر بھارت نے کسی وقت مزید شر پسندی کرنا چاہی تو معاملات مزید سنگین ہو جائیں گے۔ مکمل تباہی دستک دے رہی ہے اور کسی کو پرواہ نہیں۔
اس سارے معاملے میں ہماری حکومت نے جس بے بصیرتی ، جہالت اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا وہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے ۔ بھارت نے اس پراجیکٹ پر کام شروع کیا تو پاکستان نے انٹر نیشنل کورٹ آف آربٹریشن سے رجوع کر لیا ۔ عدالت نے پاکستان سے کہا کہ وہ پانی کے حوالے سے سارا ڈیٹا شواہد کے ساتھ عدالت کو فراہم کرے ۔ پاکستان کی تیاریوں کا عالم یہ تھا کہ جب عدالت نے یہ ڈیٹا مانگا تو حکومت کے پاس عدالت کو دینے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں ۔ عدالت سے کہا گیا دس دنوں کی مہلت دے دیجیے ہم سب کچھ پیش کر دیں گے ۔
پاکستان جس وقت پانی کے اہم ترین مسئلے پر اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا تھا ، نواز شریف اقتدار سنبھال چکے تھے اور ان کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ پاکستان کا کوئی کل وقتی وزیر خارجہ تک نہیں تھا ۔ یہ اضافی ذمہ داری انہوں نے اپنے پاس رکھی ۔کیوں رکھی ؟ یہ ایک الگ داستان ہے۔
25 جون 2013 کو نواز شریف وزیر اعظم بنے اور اس سے 6 ماہ بعد بیس دسمبر 2013 کو عدالت نے بھارت کے حق میں فیصلہ سنا دیا ۔ اس فیصلے کے صفحہ 34 پر عدالت نے لکھ دیا کہ” حکومت پاکستان نے پانی کے موجودہ اور متوقع زرعی استعمال کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کیے‘‘۔
کوئی مہذب معاشرہ ہوتا تو اس غفلت پر حکومت کا حشر نشر ہو جاتا لیکن نیم خواندہ معاشرے میں نواز حکومت نے کمال ڈھٹائی سے دعوی فرما دیا کہ یہ فیصلہ تو ہماری کامیابی ہے۔
اب آگے سنیے۔ بھارت کو عدالت نے ڈیم بنانے کا حق دے دیا تو اس نے کھل کر کھیلنا شروع کر دیا اور سندھ طاس معاہدے کی دھجیااں اڑا دیں ۔ نواز شریف اس سارے دور میں مودی کی نازبرداریاں فرماتے رہے اور سجن جندال کی میزبانی فرماتے رہے ۔اب جب مودی اس ڈیم کا افتتاح کرنے والا ہے تو ہمیں ہوش آیا ہے اور ہم درخواست ہاتھ میں لیے ورلڈ بنک کی منتیں کر رہے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت چونکہ آپ ثالث ہیں اس لیے ہماری بات تو سنیے ۔
ہم نے یہاں بھی وقت ضائع کر دیا ۔ ہماری کامیاب سفارت کاری کا عالم یہ ہے کہ ہم امید لگائے بیٹھے تھے اپریل میں ہمیں ملاقات کا وقت مل جائے گا لیکن ہمیں کہا گیا ورلڈ بنک کے صدر مصروف ہیں ابھی ان کے پاس وقت نہیں ۔ اب ڈیم کے افتتاح سے پہلے ورلڈ بنک کے صدر سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں ۔ اور افتتاح کے بعد اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔
پاکستانی حکمرانوں نے غریب قوم کے خرچے پر بیرونی دوروں کے ریکارڈ قائم کر دیے لیکن حالت یہ ہے کہ ورلڈ بنک کے سربراہ کے پاس پاکستانی وفد سے ملنے کا وقت ہی نہیں ۔ اور بے حسی دیکھیے کہ حکومت کو کوئی پرواہ نہیں کیا ہو رہا ہے ۔ پانی ہمارے لیے موت و حیات کا مسئلہ ہے ۔ لیکن ہمیں کوئی حیا نہیں آ رہی کہ اسے سنجیدگی سے لیں ۔ کوئی اور ملک ہوتا اور اس کے ساتھ ایسی واردات ہو رہی ہوتی تو وہ اب تک سفارتی محاذ پر ایسا طوفان کھڑا کر چکا ہوتا کہ ورلڈ بنک تو رہا ایک طرف خود اقوام عالم کو معاملے کا نوٹس لینا پڑتا لیکن ہمارے ہاں کشن گنگا کی واردات پر حکومت بول رہی ہے نہ اپوزیشن ۔ نیم خواندہ اور اوسط سے کم درجے کی قیادت کو شاید اس معاملے کی سنگینی کا احساس تک نہیں۔
کشن گنگا پراجیکٹ سے ہمارے ایکو سسٹم کو بھی خطرہ ہے ۔ بھارت یو این کنونشن آن بائیولوجیکل ڈائیورسٹی ، کنونشن آن کلائیمیٹ چینج اور کنونشن آن واٹر لینڈز پر دستخط کر چکا ہے ۔ ہماری پوری ایک وادی مکمل طور پر تباہ ہونے جا رہی ہے اور ہم نے ان کنونشنز کو کسی فورم پر ابھی تک موضوع نہیں بنایا ۔ کشن گنگا ڈیم سے پاکستان کو سالانہ 140 ملین ڈالر کا نقصان متوقع ہے لیکن یہ مسئلہ ہمارے قومی بیانیے میں کہیں جگہ نہیں بنا سکا ۔ یہاں یاروں کے مسائل ہی اور ہیں ۔ گندی سیاست کی شعبدہ بازی سے کوئی بلند ہو سکے تو ان مسائل پر غور کرے ۔
نیم خواندہ رہنما ، تماش بین عوام اور ڈگڈگی بجاتی سکرینیں ۔ آتش فشاں پہ بیٹھ کر بغلیں بجائی جا رہی ہیں ۔ آج کسی کو احساس تک نہیں لیکن یاد رکھیے، وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب آپ ہم سب کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم پانی کے کس خوفناک بحران سے دوچار ہو چکے ہیں ۔
اس سماج کی غیر سنجیدگی اور کھلنڈرے پن سے اب خوف آ نے لگا ہے ۔ پانی کا خوفناک بحران ہماری دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ سن سکتے ہو تو سن لو ۔
ٹوٹے پھوٹے ان الفاط کیصورت میں اس کوشش سے ہم اپنی دھرتی ماں سے ذرہ برابر وفا کرنے میں کامیاب ہو جائیں جس سے ہم نے ستر سالوں سے بے وفائی کی ہے.