پاکستانی چُوھڑی اور انڈیا کی چکنی چمیلی
شیزا نذیر
مختلف ممالک میں’’ گاٹ ٹیلنٹ‘‘ کے نام سے ریئلٹی شوز پچھلے کئی سالوں سے بہت مقبول ہو رہے ہیں۔ میں اکثر مخلتف ممالک کے گاٹ ٹیلنٹ شوز دیکھتی ہوں جن میں امریکا، انڈیا اور برطانیہ گاٹ ٹیلنٹ شوز میرے پسندیدہ ہیں۔ اِن تینوں ممالک کے شوز میں ٹیلینٹ کا مقابلہ کیا جائے تو بڑا کانٹے دار مقابلہ ہو گا۔
پچھلے دنوں برطانیہ کے شو میں دو انڈین گانوں پر ڈانس ٹیلنٹ دیکھا۔ لندن بالی وڈ ڈانس اسکول نے ’’چکنی چمیلی‘‘ پر اپنا ٹیلنٹ دِکھایا تو سائمن نے بھی جو امریکا اور برطانیہ دونوں شوز کو جج کرتے ہیں کھڑے ہو کر اُن کو سراہا۔ ایک اَور انڈین ٹریک ’’ جینے لگا ہوں پہلے سے زیادہ‘‘ پر پرفارم کیا گیا تو یقین جانیں بڑی خوشی ہوئی کہ چلو جیسے تیسےعاطف اسلم کا نام بھلے انڈیا کی ہی بدولت سہی ایک انٹرنیشل پروگرام میں آ گیا۔
ادھر ہم پاکستانی اپنا ٹیلنٹ مذہب کے نام پر نکال رہے ہیں۔ پہلے ہمارا ادب مذہبی تعصب سے اَٹا پڑا تھا اب میڈیا بھی اُسی ڈیگر پر چل نکلا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس اِس کے علاوہ کوئی موضوع ہی نہیں رہا کہ ہم اِس بات پر ڈنگ مار رہے ہیں کہ پاکستان کے اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اسلام قبول کریں۔ ایک نومولود رائیٹر پر تو مجھے بڑا ہی ترس آتا ہے کہ اُس بیچاری کے ذہن میں سوائے اِس موضوع کے لکھنے کے لئے کوئی اَور موضوع ہی نہیں ہے کہ دوسرے مذاہب کی لڑکیاں اسلام قبول کر رہی ہے وہ بھی مسلمانوں کے اخلاق سے متاثر ہو کر۔
’’ہسپانوی چوھڑی‘‘ یہ میرے الفاظ ہر گز نہیں اور نہ ہی میرے والدین نے میری ایسی تربیت کی ہے کہ میں کسی کو رنگ، نسل و مذہب کی بنیاد پر بے توقیر الفاط سے پکاروں۔ یہ الفاط ہمارے ملک کے مایہ ناز ادیب کے ہیں جو ہسپانیہ گئے اور ہوٹل کی صفائی کرنے کے لئے جب ایک خاتوں آئیں تو ادیب نے لکھا کہ ہسپانیہ کی چوڑی کمرے کی صفائی کے لئے آ گئی۔ ساتھ ہی خاتون کے چھوٹے قد اور بھاری جسامت کا مذاق اُڑایا۔
بچپن میں پی ٹی وی میں کبھی کبھار ایسے ڈرامے دیکھنے کو ملتے تھے جس میں مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے کو ہمشہ خاکروب دِکھایا جاتا تھا اور آخر میں وہ مسیحیت چھوڑ کر خلقہ اسلام میں آ جاتا تھا۔ اِسی طرح کا ایک ڈرامہ جس میں ایک مسیحی خاکروب کی بیوی چاہتی ہے کہ اُس کا شوہر عیدِ اثیار کے موقع پر بچوں کو کپڑے بنا کر دے۔ شوہر کم آمدنی کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتا۔ محلے کا ایک درد مند بااخلاق حضرت (نور الحسن) جس کے پاس عید پر قربانی کا جانور خریدنے کے پیسے ہوتے ہیں لیکن چاند رات کو جب وہ مسیحی خاکروب کی بیوی کی باتیں سُنتا ہے تو اُس کے بچوں کو بازار سے عام ریٹ سے مہنگے داموں کپڑے لے کر دیتا ہے اور درزی کو بھی ڈبل سلائی دیتا ہے۔ ہارے ہاں عیدوں اور رمعضان کے موقعوں پر مہنگائی کا بڑھ جانا تو معمول کی بات ہے۔
کیونکہ یہاں یورپی چوھڑوں کی طرح تھوڑی ہوتا ہے کہ ایشائے خردونوش اور تہواروں پر ضرورت کی چیزیں سستی کر دی جائیں اور لگثری مہنگی کر دی جائیں تاکہ امیر نہیں بلکہ ضرورت مند فائدہ اُٹھا سکیں۔ خیر بچوں کے کپڑے عید کی صبح تیار ہو جاتے ہیں۔ مسیحی خاکروب اور اُس کی بیوی نیک سیرت انسان کے اخلاق سے اِس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ اسلام قبول کر لیتے ہیں۔
پچھلے سالوں ہم ٹی وی پر بھی ایک ڈرامہ چلا جس میں ایک مسیحی خاتون کو نہایت جھلی عورت کے روپ میں بے وقوف حرکات کرتے دِکھایا گیا۔ کسی قوم کے اخلاقی معیار کو سمجھنے کے لئے یہ کافی ہے کہ یہ خلق خدا سے اُس کے رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر برتاو کرتے ہیں۔ کم تری کا شکار معاشرے ہمیشہ مذہب کے پیچھے چھپ کر اپنے آپ کو سپیریر سمجھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
۲۰۱۸ اور ایسے فرسودہ خیالات اُسی قوم کے ہو سکتے ہیں جو انسان کو رنگ، نسل اور مذہب کی عینک چڑھا کر دیکھتی ہے۔ جیو نیوز پر بھی ایک ڈرامے کا پرومو چل رہا ہے جس میں رایئٹر، ڈائریکٹر اور ساری ٹیم کے ساتھ جیو مالکان بھی نہایت احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ یعنی کہ اب گدھوں، آوارا کتوں اور مردہ مرغیوں کا گوشت بیچنے والے یہ کہیں کہ ہمارے اخلاق سے متاثر ہو کر لوگ ہمارا مذہب اختیار کر رہے ہیں۔ اور مذہب بھی وہ جس کے پابند ہم خود بھی نہیں ہے۔
دس روپے ڈیم فنڈ میں جمع کروا کر سو لوگوں کو بتانے والوں کو یہ تو پہلے سکھائیں کہ اپنے گھروں میں پانی کے ٹیب ضرورت کے بعد بند کر دو۔ اور کچھ نہیں تو کوئی ’’گوری تیرے پیار میں‘‘ جیسا ہی ڈرمہ بنا ڈالو۔ بجلی ہمارے پاس نہیں، خوراک میں ملاوٹ کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ چوھڑوں سے قرض ہم لیں، انوار راؤ جیسے مجرم ہمارے ملک میں آزاد پھریں، اساتذہ کو ہم ہتھکڑیاں لگائیں، معشیت ہماری تباہ، گوگل تحقیق کے مطابق پورن سائیٹس دیکھنے میں ہم ٹاپ ۵ میں آتے ہیں اور ہم چلیں دوسروں کو اپنے مذہبی اخلاق سے متاثر کرنے۔
ایک ایسے دَور میں جب ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو اغوا کر کے جبراً اسلام قبول کروایا جا رہا ہے اور ایسے میں مذہبی تعصب والا ادب اور میڈیا پر ڈراموں کا آن ائیر ہونا اِس عمل کی آبباری کرتا ہے۔ سالوں سے اقلیتیں ایسی گھٹیا حرکات پر خاموش رہیں لیکن اکثریت کی ذہنی پسماندگی اور احساسِ کمتری ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ میری تمام روشن ضمیروں سے درخواست ہیں کہ ایسے مواد کے نشر ہونے کے خلاف آواز اُٹھائی جائے اور پاکستان کی پسماندگی کے اصل مسائل کی طرف توجہ دِلائی جائے۔