پاکستان اور اقلیتیں

کرن ناز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نو مارچ دو ہزار اٹھارہ کو الیکشن ایکٹ میں ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم سے متعلق درخواستوں پر محفوظ کیا جانے والا فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ شناختی دستاویزات کے لیے مذہبی شناخت کے حوالے سے بیان حلفی لیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مختصر فیصلے میں حکم دیا کہ شناختی کارڈ، برتھ سرٹیفکیٹس، انتخابی فہرستوں اور پاسپورٹ کے لیے مسلم اور غیر مسلم کی مذہبی شناخت کے حوالے سے بیان حلفی لیے جائیں، اس کے علاوہ عدلیہ، مسلح افواج اور اعلیٰ سول سروس کے لیے بھی بیان حلفی لیے جائیں۔ حکومت اس بات کا اہتمام کرے کہ تمام شہریوں کے درست کوائف موجود ہوں۔ عدالت عالیہ نے کیس کی سماعت کے دوران پیش کی جانے والی رپورٹس کے حوالے سے ریمارکس دیے کہ نادرا ریکارڈ اور مردم شماری کے اعداد و شمار میں خوفناک حد تک فرق ہے۔

نادرا شہریوں کے لیے ’مذہب کی درستی‘ کرانے کے لیے ایک مدت کا تعین کرے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آئینِ پاکستان میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف موجود ہے اور اس تعریف پر مبنی بیان حلفی لازمی قرار دیا جائے۔ اپنی شناخت چھپانے والا شہری ریاست کے ساتھ دھوکا دہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے7 مارچ 2018 کو الیکشن ایکٹ 2017 میں ختم نبوت سے متعلق شق میں مبینہ تبدیلی کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جب کہ کیس کی سماعت کے دوران شماریات ڈویژن سے 1947 سے 1998 تک اور 2017 کی مردم شماری میں احمدیوں سے متعلق ریکارڈ طلب کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی وہی جج ہیں، جنہوں نے سوشل میڈیا سے مبینہ گستاخانہ مواد کو ہٹانے سے متعلق کیس کی سماعت کی، جس میں جبری گمشدہ کیے گئے بلاگرز اور پروفیسر پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا بعد میں غلط ثابت ہوا تھا۔ توہین مذہب کیس کی سماعت کے دوران یہ ایک عام تاثر تھا کہ وہ اس کیس کی سماعت سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف زیر سماعت ریفرنس کی وجہ سے کر رہے ہیں تاہم جج صاحب نے اس تاثر کو مسترد کر دیا۔

ایک طرف الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے متعلق کیس میں جسٹس صاحب شناختی کارڈ تک کے حصول کے لیے حلف نامے کو لازمی قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست1947 کو پہلی آئین ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں فرمایا تھا، ’’آپ آزاد ہیں ، آپ آزاد ہیں پاکستان کی اس ریاست میں اپنے مندروں، مسجدوں اور عبادت گاہوں میں جانے کے لیے، آپ چاہے کسی بھی مذہب، ذات اور نسل سے تعلق رکھتے ہیں،کاروبار ریاست سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں، مذہب ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے۔‘‘

لیکن بد قسمتی سے ریاست کے آئین کو بانی پاکستان کے ویژن کے برعکس اپنے مفادات کے تحفظ کا ہتھیار بنا دیا گیا۔ ملک میں فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی کا نقطہ آغاز ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے ہوا۔ مشرقی پاکستان کی علحیدگی اور سیاسی و جنگی محاذ پر شکست کے بعد بھٹو نے زخم خوردہ ملک کو سنبھالا دینے کی کوشش کی لیکن ساتھ ہی اپنی جماعت کے ایک روشن خیال، جمہوری اور سیکیولر طبقے کو دھوکا دے کر 1974 ءمیں احمدیوں کو قانون سازی کے ذریعے غیر مسلم قرار دینے کا دھبا بھی اپنے دامن پر لے لیا۔ ملاؤں اور دائیں بازو کی جماعتوں کے دباؤ پر کی گئی اس مذہبی قانون سازی پر خود پیپلز پارٹی کے لبرل اور باشعور طبقے نے بھٹو کو خبردار کیا تھا۔

یہ قانون سازی بعد ازاں خود بھٹو کے اقتدار کا تختہ پلٹنے والے جنرل ضیاالحق کے لیے انتہا پسندی اور افغان جہاد کی پروموشن میں ایک کار آمد ہتھیار ثابت ہوئی۔ سن 1984ء میں جنرل ضیاء الحق نے ایک آرڈیننس جاری کیا۔ بعد ازاں اس آرڈیننس میں پاکستان پینل کوڈ کی شق 298 بی اور سی کا اضافہ کرکے قوانین کو مزید سخت کردیا گیا۔ اس آرڈیننس کے نافذ ہونے کے ایک سال کے اندر ان دو شقوں کے تحت 300 کے قریب مقدمات درج کیے گئے۔ جنرل ضیا نے اپنے دور میں توہین مذہب کا خود ساختہ قانون نافذ کر کے فرقہ واریت کے سوئے ہوئے خون آشام بھیڑیے کو جگا دیا۔

ذاتی دشمنیوں اور اراضی پر قبضے کے لیے بھی یہی قانون بطور ہتھیار استعمال کیا گیا، مشتعل ہجوم نے بستیاں نذر آتش کیں، لوگوں کو زندہ جلایا یا اینٹیں اور ڈنڈے برسا کر ان کی جان لی۔ نہ صرف عوام بلکہ خواص نے بھی اس قانون کی سرپرستی کی اور ہماری اشرافیہ نے بھی اسے کھل کر سیاسی مقاصد کے حصول کا آلہ کار بنایا۔ ایک مستند ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سن 1987 سے لے کر 2014 تک ایک ہزار تین سو افراد پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا جب کہ ساٹھ سے زائد افراد اس خود ساختہ قانون کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھوچکے۔

فرقہ واریت کی اس منہ زور لہر نے اقلیتوں اور امن پسند مسلمانوں سمیت ایک لاکھ کے قریب معصوم لوگوں کی جانیں نگل لیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک میں بسنے والی اقلیتی برادریاں خود کو غیر محفوظ اور مذہبی انتہا پسندوں کا آسان ہدف سمجھتی ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ مشال خان کا خون ناحق بہنے کے بعد مفتی تقی عثمانی، مفتی نعیم اور راغب نعیمی سمیت کئی مفتیان کرام نے توہین مذہب پر قانون ہاتھ میں لینے اور کسی شخص کو قتل کرنے کو حرام قرار دیا لیکن فتوے پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث یہ سلسلہ نہیں رکا۔ مشال خان کے قتل کے دو روز بعد ہی ایک احمدی توہین مذہب کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنا، انیس اپریل کو سیالکوٹ میں تین برقعہ پوش بہنوں نے مقامی مذہبی رہنما کے پینتالیس سالہ بیٹے فضل عباس کو فائرنگ کرکے اسی کے گھر میں قتل کردیا، اٹھارہ اپریل کو پنجاب یونیورسٹی کی پروفیسر طاہرہ ملک کو احمدی ہونے کے جرم میں قتل کر دیاگیا، جب کہ اکیس اپریل کو چترال کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ایک اور شخص کو توہین مذہب پر ہجوم نے بیہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا، ذہنی معذور رشید احمد کو امام مسجد نے لوگوں سے بچاکر پولیس کے حوالے کیا اور ہجوم خود امام مسجد کے اس ذمہ دارانہ اقدام پر اتنا مشتعل ہوا کہ انہیں محفوظ مقام پر روپوش ہونا پڑا۔

حال ہی میں لاہور کے پطرس مسیح پر مبینہ طور پر توہین مذہب کا الزام لگا اور ایف آئی اے کرائم سیل میں پطرس اور اس کے کزن ساجد مسیح کے ساتھ جو بیہیمانہ سلوک کیا گیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ توہین اسلام کے نام پر اقلیتوں کے استحصال کو روکنے کے لیے سلمان تاثیر اور ایڈووکیٹ راشد رحمان اور ان جیسے نڈر لوگوں نے توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کی بات کی تو ان کی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دی گئی۔

کسی بھی ملک کا آئین، اس کی قوم اور ریاستی اداروں کے لیے مقدس کتاب کا درجہ رکھتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25 ( 1 )کی رو سے ’’تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور مساوی تحفّظ کے حق دار ہیں۔‘‘ اس آرٹیکل کے مطابق آئین میں کسی تعصب، ذات پات اور مذہب کے امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر اسی آئین میں کئی ذیلی شقیں ایسی ہیں جن میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق ملک کا صدر، وزیر اعظم اور قومی اسمبلی کا اسپیکر صرف مسلمان ہی ہوگا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی صرف پانچ فیصد ہے۔ مسلمانوں کی نشستوں میں کئی بار اضافہ کیاگیا ہے لیکن اقلیتوں کی نمائندگی وہی رکھی گئی ہے۔ ایوانوں میں اقلیتوں کے جو نمائندے نظر آتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی پارٹی سے منسلک ہونے کے باعث پارٹی پالیسیز کی وجہ سے اپنی برادری کی صحیح طورپر نمائندگی نہیں کر سکتے ۔ علحیدہ الیکٹورل سسٹم بھی اقلیتوں کے ساتھ ایک امتیازی رویہ ہے۔ نظام تعلیم جہاں فرق رکھنے کی ضرورت ہے، اسے جبری اسلام پھیلانے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسلامیات کی وہی کتابیں عیسائی اور ہندوﺅں کو بھی پڑھائی جارہی ہیں۔ اسکول اسمبلی جو کہ خاص مسلمان بچوں کے لیے ہوتی ہے، اس میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کی شرکت بھی لازمی قرار دی جاتی ہے۔

یاد رکھیں کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ہم وطن ہمارے بھائی ہیں جن سے روا امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھانا اور انہیں معاشرے میں ان کا جائز حق دلانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ ضیائی آمریت کی نشانی توہین مذہب کے قانون نے ہمیں دنیا بھر میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیا ۔پاکستان کی امداد کی بندش کے وقت امریکی قانون سازوں کو بھی کہنا پڑا کہ پاکستان دہشتگردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف موثر کارروائی کرے اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے ۔ یاد رہے کہ کئی مسلم ممالک اس قانون کے بغیر بھی دنیا کے نقشے پر موجود ہیں ۔ پاکستان کو بھی اب ذلت کے اس گڑھے سے نکالنا ہے تو باشعور اور پڑھے لکھے طبقات کو متحد ہوکر بلاخوف اس قانون کے خاتمے یا کم از کم اس میں ترمیم کی بات کرنا ہوگی۔