پتلی تماشہ
وقاص احمد
ایک پتلی تماشہ ہے جو لگا ہوا اور چلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ روکنے والا کوئی نہیں کیونکہ تماشہ کرنے والوں کے “آئینی تحفظ” آڑے آجاتے ہیں۔ اگر آپ حقیقی دنیا میں پتلی تماشا کرنے والے فنکاروں کو ملیں تو زیادہ تر فنکار آپ کو ایسے ملیں گے جو شرمیلے ہوتے ہیں اور لائیو سٹیج پر اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ مگر فن چونکہ ان کی رگوں میں بسا ہوتا ہے تو ایسے لوگ پتلی تماشے کا سہارا لے کر خود تو پس پردہ چلے جاتے ہیں اور اپنی اداکاری کے جوہر پتلیوں کی مدد سے دکھاتے ہیں۔ پتلیاں چونکہ بے حس و زباں ہوتی ہیں اس لیے شو فلاپ ہونے پر تماش بینوں کی ہوٹنگ، جگتیں، گالیاں، کوسنے، اچھالے گئے جوتے یا پھینکے گئے گندے ٹماٹر اور انڈے کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتیں نا ہی گھبراتی ہیں۔
ایسا ہی ایک پتلی تماشا پاکستان میں سجا ہے۔ پروگرام کا نام “احتساب” رکھا گیا ہے۔ مداری پردے کے پیچھے چھپے ہیں، تین چار پتلیاں آگے ناچ رہی ہیں، شو فلاپ ہو چکا ہے۔ منوں کے حساب سے کوسنے اور ٹنوں کے حساب سے بے عزتی شو کے منتظمین کی سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر روز ہوتی ہے۔ مگر مداری مطمئن ہے کیونکہ وہ کسی کو نظر نہیں آرہا اور پتلیاں؟؟ خیر پتلیوں چونکہ بے حس اور بے زبان ہوتی ہیں اس لیے عزت بے عزتی کی پرواہ کیے بنا ڈھیٹوں کی طرح شو گھسیٹی جا رہی ہیں۔
احتساب نام کا یہ شو بھی ایک خاصے کی چیز ہے۔ مرکزی خیال فٹ بال کے میچ جیسا ہے۔ ایک پتلی بے سروپا اور مضحکہ خیز الزامات کی کک لگا کر ساتھی پتلی کو پاس دیتی ہے اور ساتھی پتلی سوموٹو کی ڈائیو لگا کر مخالف گول کی طرف دوڑ پڑتی ہے۔ راستے میں “پرائم ٹائم ٹاک شوز” والی پتلیاں “tiki-taka” (ایک فٹ بال ٹیکنیک) سے سوموٹو والی پتلی کو سپورٹ کرتے ہوئے مخالف گول تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں اور بالآخر سوموٹو پتلی اپنا گول کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
یہ “گول” بھی کیا ہے؟ تذلیل، بے عزتی، رعونت، خدائی لہجے۔۔۔
مخالف کون ہے؟ تقریباً وہ ہر کوئی جس کو پردے کے پیچھے بیٹھا مداری پسند نہیں کرتا۔
متاثرین کون ہیں؟ وہ تمام لوگ جن کا شاید مداری کے مخالفوں سے تو تعلق ہی کوئی نہیں لیکن مخالفوں کے علاقے سے تعلق ہے۔ ان میں ڈاکٹر شامل ہیں، ان میں بیوروکریسی شامل ہے، اس میں پولیس شامل ہے، اس میں صعنتکار شامل ہیں، ان میں بنکار شامل ہیں۔
روز سب کو باری باری تذلیل کی اس بے مقصد مشق سے بالکل ایسے ہی گزارا جاتا ہے جیسے فسٹ ائیر میں داخل ہوئے نئے سٹوڈنٹ کو سینئر اور خرانٹ سٹوڈنٹ bullying کا نشانہ بناتے ہیں۔ جج اور جگت باز میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ دانش مندی کا عالم یہ ہے کہ “وہ دیکھو کتا تمہارا کان لے گیا” پر سوموٹو لے لیا جاتا ہے اور اونچی ترین مسند پر بیٹھے ایک شخص کے ذہن سے خیال تک نہیں گزرتا کہ سوموٹو اور پھر شخصی تذلیل کی مشق شروع کرنے سے پہلے ہاتھ بڑھا کر کان ہی چیک کر لیا جائے کہ موجود ہے یا نہیں۔ عجیب مقدمات ہیں، سائل کوئی نہیں، سوال کوئی نہیں، درخواست کوئی نہیں، جرم کوئی نہیں۔ بس ایک الزام دھر دیا جاتا ہے اور ڈرامہ شروع۔
“کون ہو تم؟”
“پیچھے جا کر بیٹھو”
“ابھی تمہاری وردی اترواتا ہوں”
“ابھی تمہیں گرفتار کرواتا ہوں”
“تمہیں توہین عدالت کی کاروائی بھگتنی پڑے گی”
“تم اخباریں بیچنے والے کیسے اس عہدے پر پہنچ گئے؟”
یہ کون ہے جو خدا کے لہجے میں بول رہا ہے، کون ہے جو بشر کی اوقات بھول بیٹھا ہے۔ مجھ سمیت مجھ جیسے کئی کمزور سب کچھ بیٹھے خاموشی سے دیکھ رہے تھے کہ خبر ملی کہ “مابدولت” کا رخ انور اب اساتذہ اور وہ بھی وائس چانسلر کے عہدے کے لوگوں کی طرف ہو گیا ہے۔ 25-30 سال سے تعلیمی شعبے میں خدمات سرانجام دینے والے شریف لوگ اپنی عزت بچانے کے لیے استعفیٰ پر استعفیٰ دے رہے ہیں کیونکہ ان کا سامنا ایک پتلی سے ہے اور پتلی کی نا کوئی عزت ہوتی ہے، نا وقار، نا کوئی غیرت نا ہی کوئی رکھ رکھاؤ۔ قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ ایک شریف استاد کو ایک جگت باز کے سامنے لا پھینکا ہے۔ اور شریف بندے کے پاس صرف خاموش رہ کر کنی کترا جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
ایک مختصر واقعے پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ ایوب خان صاحب ایک بہت نامی گرامی شخصیت کی خدمات سے شدید متاثر تھے۔ اس شخصیت کو کئی بار پیغام بھجوایا گیا کہ ہم آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ شخصیت انکار کرتی رہی۔ آخر جب اصرار حد سے بڑھا تو انہوں نے کہلوا دیا کہ اگر آپ کو اتنا ہی اصرار ہے تو مجھے یا تو کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگا دیں یا جج کے طور پر تعیناتی کر دیں۔ ایوب خان کے پاس بات پہنچی تو انہوں نے پیغام لانے والے بندے کو کہا “بھئی یہ وائس چانسلرز تو بہت پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں، ایسا کرتے ہیں کہ ان کو جج لگا دیتے ہیں”.
حاصل کالم بس اتنا ہی ہے کہ اپنی اوقات پہچانو، قبل اسکے کہ تمہاری اوقات تمہیں یاد کروائی جائے۔