پراپیگنڈہ
مہناز اختر
پرانے وقتوں میں عقلمند بادشاہ بھیس بدل کر گلی کوچوں اور بازاروں میں پھرا کرتے تھے تاکہ سازشوں، سیاست، زمینی حقائق، نچلی سطح کے انتظامی امور اور عوامی نبض کے مشاہدہ کے بعد مفید سیاسی حکمت عملی مرتب کی جاسکے۔ فی زمانہ بھی عوامی سوچ اور سیاسی تحریکوں کا گہرائی سے جائزہ لینے کے لیئے یہی طریقہ مؤثرترین ہے بلکہ میں تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ کہوں گی کہ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ عوام کی سوچ کے دھارے کس رخ پر ہیں اور کس معاملے پر عوامی جذبات کا آتش فشاں پھٹنے کو تیار ہے تو Facebook closed groups جوائن کرلیں۔
70 اور 80 کی دہائی میں اسرائیل کی حکومت نے پبلک ڈپلومیسی کے تحت بین الاقومی سطح پر ہسبارہ نامی (Hasbara عبرانی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی وضاحت یا پرچار کے ہیں) عوامی مہم شروع کی تاکہ میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سیمیناروں کے ذریعے اسرائیلی حکومت اور اسکے اقدامات کو مثبت طریقے سے مغربی دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ بعد ازاں یہ مہم ایک منصوبے میں تبدیل کردی گئی اور سال 2009 کے بعد اس منصوبے کے تحت Internet warfare squad تشکیل دیا گیا۔ اس منصوبے پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے اور اسکواڈ کےاراکین کو پرکشش تنخواہ اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ آج کل اس اسکواڈ کے لیے Hasbara Trolls کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اس منصوبے کا مقصد معلومات کا کنٹرول , پراپیگنڈہ کے ذریعے عوامی سوچ کو اپنی مرضی کے تابع کرنا، توثیقی تعصب پر عمل پیرا ہو کر اپنے مخالفین کی کردار کشی کرنا، انکی تہذیب و تمدن کو گھناؤنا دکھانا اور مخالف نظریات رکھنے والوں کی ٹرولنگ کرنا ہے۔ اس منصوبے کے لیے سب سے زیادہ زرخیز زمین سائبر اسپیس ہے جہاں مختلف ویب سائٹ پر جھوٹی خبروں اور کبھی سچی خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔مخصوص سائنسی اور مذہبی نظریات کو فروغ دیا جاتا ہے اور مخالفین کے نظریات کو بدی کا محور اور مرکز قرار دیا جاتا ہے یا مختلف Conspiracy theories کو سائنسی و تاریخی حقائق بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
اسی طرز پر 2013 کے آس پاس ہندوستان میں BJP IT Cell تشکیل دیا گیا اور اس میں ایسے نوجوانوں کو شامل کیا گیا جو اپنے لفظوں سے لوگوں کی ماں بہنوں کو ریپ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس منصوبے کے ذریعےچند ہی سالوں میں ہندوستان کی سیاست اور سماجی ڈھانچے کو یکسرتبدیل کردیا گیا ہے۔ ایک مخصوص طرز فکر کو اپنانےکے لیے عوامی رائے عامہ کو ہموار کیا گیا ہے اورعوامی ذہن سازی کے اس منصوبے کو اتنے منظم طریقے سےانجام دیا گیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے والا ملک آج زعفرانی رنگ میں رنگا نظر آتا ہے۔
بقائے حیات اور بقائے تشخص دو بنیادی محرکات ہیں جن سے سماجی زندگی کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ کسی قوم میں نسلی تفاخر اور عصبیت کے جذبات پیدا کرکے آپ ان سے مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں .اور یہی سب کچھ بھارتی جنتا پارٹی اور RRS نے ہندوستان کے غریب اور روایت پسند طبقے کے ساتھ کیا، انہیں بار بار یہ احساس دلایا کہ انکے مذہب اور مذہبی تشخص کوسیکولر ہندوؤں اور مسلمانوں سے خطرہ ہے اور مسلمان غاصب، احسان فراموش اور وحشی قوم ہیں اور انکا مقابلہ صرف BJP اور RRS جیسی تنظیمیں کرسکتی ہیں۔
آج BJP وزارت اطلاعات ونشریات اور وزارت تعلیم پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے اور بڑے پیمانے پر نصاب کی تبدیلی کے ذریعے عوامی سوچ کے دھاروں کو تبدیل کرنے کے مشن پر عمل پیرا ہے . BJP IT Cell کے ذریعے BJP نے پرتشدّد مذہبی منافرت اور عصبیت کا پرچار کیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو اپنا ہتھیار بناکر اقلیتوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالا اور اپنے مذموم سیاسی اور مذہبی مقاصد کو بڑی آسانی سے حاصل کرلیا. مشہور انڈین صحافی راویش کمار اس سازش کا کئی دفعہ پردہ چاک کرچکے ہیں مگر پچھلے ہفتے آوی ڈانڈیا اور ایک مشہور نوجوان ویڈیو بلاگر Dhruv Rathee نے اپنی ویڈیو بلاگ “BJP IT Cell ” میں اسی سیل کے Super 150 (Trollers) میں سے ایک سے گفتگو کی اور اس پوری سازش کا پردہ چاک کیا۔
یہاں میں اپنے ان ذاتی تجربات و مشاہدات کے حوالے بھی دینا چاہوں گی جو میں نے گزشتہ برسوں میں بڑے بڑے انڈین سوشل میڈیا گروپس کا ممبر رہ کر اخذ کیئے ہیں . ایسے گروپس روایت پسند اور انتہا پسند مودی بھگت ہندو افراد کے ذریعے ہی چلائے جاتے ہیں .مزید یہ کہ وہ کون سی سازشی نظریات تھے جنکا پرچار مسلمانوں اور مسیحیوں کے خلاف Closed Facebook Groups اور WhatsApp Groups میں بڑے پیما نے پر کیا گیا, لیکن آج میرا موضوع ہندوستان میں اسلام اور مسلما ن مخالف پرچار کے حوالے سے ہے تو اسی پر توجہ دینا چاہوں گی, مسیحیت مخالف پرچار پر الگ سے بات کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔
انٹرنیٹ سرچ انجنز سے میری دوستی لگ بھگ ایک عشرے پرانی ہے اکلٹ سائنس,مذاہب عالم اور مختلف cults , تاریخ, سائنس, آثارقدیمہ, اور تعصب پر مبنی شازشی نظریات کے مطالعے سے دلچسپی کی وجہ سے لاشعوری طور پرمیرے ذہن میں معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ جمع ہوچکا تھا مگرسیاست سے عدم دلچسپی کی وجہ سے اس بات کا گمان تک نہ ہوا کہ سازشی نظریات کا یہ سیلاب ہندوستان کی سیاست پر کتنا گہرا اثر ڈال رہا ہے ( مذکورہ سازشی نظریات Haribhakt.Com پر دیکھے جاسکتے ہیں). 2015 میں فیس بک کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد میں نے زیادہ تر سائنس , تاریخ اور ہندوستانی تاریخ والے گروپس جوائن کیئے . یہ مخصوص گروپس زیادہ ہندوستانی چلاتے ہیں یا پھر انمیں اکثریت ہندوستانیوں کی ہے , کیونکہ اس خطہ کے آئی ٹی سیکٹر میں ہندوستان کی اجارہ داری ہے تو نظریات کا سب سے منظم اور مضبوط پراپیگنڈہ بھی انہی کی طرف سے ہوتا ہے. یہاں یہ بات ذہن نشین کرتے چلیں کہ پورے ہندوستان میں منظم طریقے سے بنائے جانے والے جعلی Facebook Ids کی تعداد کروڑوں میں ہے جو مخصوص سیاسی اور مذہبی مفادات کو حاصل کرنے کے لیئے استعمال کیئے جاتے ہیں.
میرے لیئے شروعات میں سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ ایک منظم انداز میں انہیں مخصوص سازشی نظریات کا پرچار بڑے پیمانے پر ان گروپس میں کیا جارہا تھا جس سے میں واقف تھی .جیسے کہ “اسلام سا پہلے دنیا کافی پرامن تھی, اسلام کی مقدس ہستیوں کی کردار کشی کرنا, مسلمانوں کیوجہ سے دنیا کو خطرہ ہے اور مسلمان منظم طریقے سے اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں, اسلام سے پہلے عرب “سناتن دھرم” (ہندومت کا اصل نام) کے پیروکار تھے, کعبہ دراصل “کعبیشور” تھا اور حجر اسود “شیو لنگ” ہے, مسلمان غزوہ ہند کی تیاری کررہے ہیں اور ہندوستانی مسلمانوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے, تاج محل پرانا ہندو مندر “تیجو مہالیائے” ہے, پاکستان کا وجود اس دنیا کے لیئے کینسر ہے, مسلمان اخلاق سے عاری قوم ہیں کیونکہ یہ گوشت خور ہیں اور انکے ہاں بہنوں (عم زاد) سے شادی جائز ہے , مسلمان فاتحین نے منظم طریقے سے بیس لاکھ سے زائد عام ہندوؤں کا قتل عام کیا ہزاروں ہندوخواتین کی عصمتوں کو پامال کیا اور بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو زبردستی مسلمان کیا,جواہرلال یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سارےانقلابی طلباء وطالبات پاکستان نواز ہیں اور ہندوستان کے غدار ہیں,سیکولرازم “Sickularism ” ہے اور گاندھی ہندوستان کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہے وغیرہ وغیرہ” ۔
تو یہ تھا RRS کے روحانی رہنما اور دو قومی نظریے کے بانی “ونایک دامودر ساورکر” اور انکے پیروکاروں کے نظریات کا مختصر سا خاکہ جو کسی بھی عام انسان کے ذہن کا بیڑہ غرق کرنے کے لیئے کافی ہے اور اگر آپ نے غلطی سے دلائل کے ساتھ ان گروپس میں اس پراپیگنڈہ کا جواب دینا شروع کیا تو بس سمجھ جائیں کہ آپ نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے یعنی کہ آپ بدترین اور منظم ٹرولنگ کا نشانہ بننے کے لیئے تیار رہیں.
آپ Facebook پر Namaste,Ancient India,Indian army یا Hindu جیسے الفاظوں سے شروع ہونے والے گروپس یا انڈین Vegan گروپس میں داخل ہو کر دیکھں یا صرف بدنام زمانہ انڈین پیج Shankhnad اور We support Tarik Fateh کا دورہ کرلیں اور ساتھ میں Haribhakt.com کا بھی ایک چکر لگا لیں تو آپکو اندازہ ہوگا کہ نفرت کی فیکٹری کمال مہارت سے نفرت اور جھوٹ کا پرچار کررہی ہے اورعام ہندو افراد اس پراپگینڈہ پر آنکھ بند کرکے ایمان لارہے ہیں.
ان دو سالوں کے طویل مشاہدے کے بعد جو بنیادی نتائج میں نے اخذ کیئے وہ یہ ہیں.
1-BJP IT Cell کی سب سے بڑی طاقت انڈیا کی IT انڈسٹری ہے جسکا مرکز جنوبی بھارت ہے , اور اس انڈسٹری کے 40 فیصد لوگ Facebook پر اپنا ذاتی صفحہ یا گروپ چلا رہے ہیں. برہمنیت سے متاثرہندو کمیونٹی اور جنوبی بھارت کی تیلگو کمیونٹی ہندوستان اور ہندوستان سے باہراپنے مذہبی تفاخر اور تعصب کا سب سے زیادہ منظم اور پرکشش پرچار کررہی ہے .
2- یہ ٹرولرز مخصوص ہندوستانی قومیت , ذات برادری , دور دراز علاقوں اور غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور بڑے شہروں میں روزگار کی خاطر رہائش پزیر ہیں .
3- یہ ٹرولرز زیادہ ترمودی و یوگی نواز ہیں.
4- خالصتاً علمی گروپس اور دیگر دوستانہ گروپس سے تعلق رکھنے والے ہندو ممبرز کا رویہ ان سے یکسر مختلف , دوستانہ اور جمہوری ہے ,وہاں ہندو اور مسلمان دوستوں کیطرح بحث و مباحثہ میں مصروف نظر آتے ہیں .
5- ان پرفیشنل ٹرولرز میں کوئی ایک بھی خاتون موجود نہیں وہ اس لیئے کہ BJP روایت پسند جماعت کی حیثیت سے شناخت رکھتی ہے اور اگر کوئی خاتون گالی گلوچ کرے گی تو پارٹی اور اسکے نظریات کی امیج خراب ہوگی.
6- سکھ برادری کے لوگ اس پورے منظرنامہ میں بہت کم نظر آتے ہیں .
7- عام طور پرکشمیریوں کو دہشت گرد اور معاونِ دہشت گرد کہا جاتا ہے اورکشمیر میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے مگر اسکے باوجود بھی کشمیری نوجوان پورے منظرنامہ میں کہیں بھی اپنا دفاع کرتے یا انکا مقابلہ کرتے نظر نہیں آتے.
8- 2016 کے بعد سے بڑی تعداد میں ہندوستانی مسلمان ان ٹرولرز کے منفی پرچار کا مقابلہ کرنے کے لیئے کھل کر سامنے آرہے ہیں مگر کشمیری مسلمان ان گروپس سے غائب ہیں.
9- سارے ایسے گروپس جو اس قسم کی سوچ کا پرچار کررہے ہیں انکے دو سے تین ہزار ممبرز common ہیں اور پچاس ساٹھ common active members ہیں .
لیکن تمام تر صورتحال میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہاں ہندو اورمسلمان مل کر نفرت کی اس سازش کا پردہ چاک کررہے ہیں اور لوگوں کو سچ بتانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ,مخلص صحافی اور بلاگرز صف اول پر ڈ ٹے نظر آرہے ہیں . راویش کمار, ونود دوعا, ڈاکٹر رام پنیانی, دھرو راٹھی, ولی رحمانی, کمار شیام,عباس حفیظ خان, رام سبرمنیم,آوی ڈانڈیا , ابھیسار شرما اور دیگرافراد انتہائی حوصلے سے سائبر اسپیس کی اس جنگ میں مثبت اور جرات مندانہ جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں. ٹرولرز کی جانب سے ان لوگوں کو ہر روز غلیظ گالیوں کے ساتھ ساتھ غدارِ وطن اور غدارِ دھرم کے خطابات بھی دیئے جاتے ہیں۔
یہ تو تھا ایک مختصر سا جائزہ ہندوستان کی صورتحال کا .ویسے اگر آپ اس خطے میں امن کا خواب دیکھ رہے ہیں تو یہ صرف اور صرف دیوانے کا خواب ہے کیونکہBJP اور RRS مشن 2024 میں مصروف ہے کہ جب وہاں جمہوریت اور سیکولر بھارت کی بات کرنے والے اقلیت میں شامل ہوجائیں گے اور ہندوستان مکمل طور پر ہندو دیش ہوگا اور یہ سب کچھ وہا ں جمہور کی طاقت کے ذریعے کیا جائے گا . ہندوستان میں بھی نفرت کی اس Domino کا آغاز ہوچکا ہے جس کا انجام بھیانک تباہی ہے.
ہوسکتا آپکو یہ حقائق جان کر پڑوسیوں پر بہت غصہ آرہا ہو اور یہ حقیقت بھی ہے کہ دنیا بھر میں اس منفی پراپیگنڈہ کا شکار مسلمان ہی ہوئے ہیں مگر غصہ تھوک کر آپ کو ایک گلاس ٹھنڈا پانی پی لینا چاہیے کیونکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ صرف اسرائیل اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کہ تمام تر ممالک بشمول امریکہ , سعودی عرب, ایران, روس اور پاکستان بھی عوامی ذہن سازی کے جرم میں برابر کے شریک ہیں سب ہی اپنے اپنے مفاد کے لیئے حقائق کو مسخ کرنے میں برابر کا کردار نبھاتے نظر آتے ہیں.نصاب کی تبدیلی سے لے کر تاریخ میں ردو بدل اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیئے جانبدارنہ اور معتاصبانہ دلائل کا استعمال کرنا اس جنگ کا بنیادی اصول ہے. اس دور کی برین واشنگ مہم کا سلسلہ پہلی جنگ عظیم سے شروع ہوا تھا اور آج انتہاؤں کو چھورہا ہے۔
پاکستان میں اسلام کے نام پر اس پراپیگنڈا مہم کا باقاعدہ آغاز ضیاء دور سے ہوا تھا۔ مانا کہ IT سیکٹر میں ہم ہندوستان سے کافی پیچھے ہیں مگر اپنی کتابوں , اخبارات اور مساجد کے ذریعے ہم نے بھی عوام کی برین واشنگ میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ تاریخ میں ردو بدل, امت اخبار, اوریا مقبول جان, زید حامد اور ہمارے نام نہاد علماء کا اندھا فلسفہ جہاد اسی نفرت کے پرچارکی مثالیں ہیں . پاکستان میں مذہبی منافرت کے پرچار کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں اور آگے بھی بھگتیں گے کیونکہ ہم بھی غیر مسلم پاکستانیوں ,قادیانی برادری , ہزارہ اور شیعہ مسلمانوں کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں . اگر ہندوستان میں ہندو توہین مذہب ( گائے کا گوشت کھانے اور لو جہاد) کے نام پر مسلمان کو قتل کررہا ہے تو ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں بلکہ توہین مذہب اور توہین رسالت کے نام پر ہم بھی برسوں سے خون بہا رہے ہیں. آج اگر ہندوستان میں BJP اور RRS “گھر واپسی” ( ہندوستانی مسیحیوں اور مسلمانوں کو دوبارہ ہندو دھرم میں لوٹانے کی مہم) کا باقاعدہ آغاز کرچکے ہیں تو ہماری مذہبی جماعتوں کو بھی غیر مسلموں کو داخلِ اسلام کرنے کا بڑا شوق ہے۔
عام طور پر ایڈورٹائرز اور فلم میکرز کو خوابوں کے سوداگر یا dream merchant کہا جاتا ہے مگر زمانہ قدیم سے یہی کام سیاسی اور مذہبی رہنما کرتے چلے آرہے ہیں , یہ خواب دکھاتے اور خواب بیچتے ہیں اور انہی خوابوں کے عوض ہماری زندگیاں تک گروی رکھ لیتے ہیں . آج ہم ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں معلومات کا پیچیدہ اور غیر حقیقی جال ہمیں گھیرے ہوئے ہے. ہمیں معلومات کے ذریعے Suggestion دی جارہی ہے اور ہم اس تنویمی کیفیت میں ویسا ہی کرتے ہیں جو ہم سے کہا جاتا ہے. جو کچھ ہمیں بتایا جاتا ہے یا جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں اسمیں حق شاید 20 فیصد سے زیادہ نہیں , ہمارے دوستوں اور دشمنوں کا تعین کوئی اور کرتا ہے . ہماری ضرورتوں اور خواہشات کا تعین کوئی اور کررہا ہے اور ہماری حیثیت کٹھ پتلیوں جیسی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس صورتحال سے باہر نہیں آیا جاسکتا مگر مسئلہ یہ ہے ہم جسے “سچ” سمجھتے ہیں اسکے ساتھ مطمئن ہوچکے ہیں اور حق کی تلاش اور تحقیق سے صرف اس لیئے کتراتے ہیں کہ جو ہم جانتے ہیں کہیں وہ باطل ثابت نا ہوجائے۔
تحقیق سے ثابت ہے کہ جھوٹی خبر سچی خبر کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور آج کل تو وائرل ہو جاتی ہے اور ہم بحیثیت قوم اندھی تقلید کی مثال قائم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے. کئی مفکروں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ تمام انسان برابر نہیں ہوتے یعنی سب کا فہم اور مرتبہ الگ الگ ہوتا ہے اور عوام کی اکثریت بھیڑ کا حصہ بن کر اپنی قدرتی فکری صلاحیتوں کو بالائے طاق رکھ دیتی ہے , کیونکہ یہ زندگی گزارنے کا آسان طریقہ ہے.آج کل انسانی نفسیات کی اسی کمزوری کا فائدہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اٹھایا جارہا ہے۔
آج کے دور میں اپنی تحقیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر معاملے کی حقیقت تک پہنچنا نہایت ضروری ہے کیونکہ جھوٹ اور نفرت کے پر فریب طلسم ہوشربا سے باہر آنے کا واحد طریقہ تحقیق ہے۔
(آئندہ مضمون میں ہندوستانی مسلمانوں کی ایک ایسی غفلت پر بات ہو گی جسکا وہاں کی ہندو انتہا پسند جماعتوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی مرضی کے سیاسی نتائج حاصل کئیے)