پشتون ہمارے اپنے ہیں
عابد حسین
عوام کا جمِ غفیر دیکھ کر جنرل کو دل کا دکھ کم کرنے کا سنہری موقع میسر آیا ـ دوست کو سرکاری جیپ سڑک کنارے لگانے کا کہا ابھی جیپ صحیح طور رکی بھی نہیں تھی کہ جنرل صاحب نے جھٹ سے چھلانگ لگائی اور جیپ سے اتر گئے وہ پلک جھپکتے ہی چند لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے ہٹاتے ہوئے عین اس جگہ نمودار ہوئے جہاں پر صحافیوں کی نگاہوں نے انہیں تاک لیاـ صحافیوں کے بے تاب غول نے جنرل صاحب کو گھیرے میں لیا اور طرح طرح کے سوال جھاڑنے لگے۔
سوال ـ سر اب آپ کے عزائم کیا ہیں؟ جواب ـ میں آخری سپاہی اور آخری گولی تک لڑوں گا!
سوال ـ کیا دشمن کو دور رکھنے کےلیے آپ کے پاس استعداد باقی ہے؟ جواب ـ دیکھیں انہیں(دشمن) یہاں تک پہنچنے کےلیے میری لاش پر سے گزرنا ہوگا اور انہیں پہلے یہاں(اپنی چھاتی پر ہاتھ مارتے ہوئے) سے اپنے ٹینک گزارنے ہوں گے۔
المختصر ابھی مزید سوالات جاری تھے کہ جنرل صاحب یکایک صحافیوں کی بوچھاڑ سے نکل پڑے اور دوست سے بولے کہ جلدی سے زیرِ زمین ہیڈ کوارٹر لے چلے۔
جنرل کا دوست یہ صورتحال دیکھ کر تذبذب کا شکار تھا کیونکہ ایک طرف جنرل کا صحافیوں کے سامنے رعب دار جرنیلی چہرہ تھا جو سب دیکھ رہے تھے جبکہ جنرل کا دوسرا چہرہ بھی تھا جو اصل جنگی صورتحال کی وجہ سے اپنی بے بسی نالائقی اور ناکامی کو اندر ہی اندر تسلیم کر رہا تھا۔
ایک چہرہ کہ جہاں وہ صحافیوں کے سامنے سینہ پُھلا کر چھاتی پر ہاتھ مار رہے تھے جبکہ تھوڑی دیر پہلے جنرل صاحب کو ایک سویلین حوصلہ دیتے ہوئے بول رہا تھا کہ دیکھو جنرل حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے زندگی دھوپ چھاؤں کا نام ہے کبھی اچھے تو کبھی برے دن بھی آجاتے ہیں تمہیں ایسا کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیئے تھا سیاسی معاملات کو سیاسی عمل ہی سے حل کیا جاتا ہے تم لوگوں نے خوامخواہ جلد بازی کی جس کا نتیجہ آج شرمندگی اور ذلت ہے۔
دیکھو جنرل جرنیلوں کو بھی نشیب و فراز دیکھنے پڑجاتے ہیں کبھی فتح کی روشنی ماتھے پر دمکتی ہے تو کبھی شکست کے کالے سائے تمام شہرت کو کجلا جاتے ہیں تم ذرا حوصلہ اور حواس قائم رکھوـ۔
سویلین کی بات ابھی جاری تھی کہ چوڑے سینے پر آدھے آدھے پاؤ پیتل کے تمغے سجائے بیٹھے جنرل کا جسم کپکپانے لگا اور جنرل کی آنکھوں سے آنسوں بہہ نکلے جنرل نے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھ لیے اور وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے اور سسکیاں بھرنے لگا سویلین نے مشفقانہ ہاتھ بڑھایا جنرل کے کندھے پر رکھا اور تسلی دیتے ہوئے بولا کہ جنرل صاحب آپ ہمت نہ ہاریں اللہ عظیم ہے۔
مگر جنرل صاحب تھے کہ بلک بلک کر روئے جا رہے تھے سویلین نے جب جنرل کی حالت مزید غیر ہوتی دیکھی توجنرل کے دوست سے کہا کہ جنرل کو ان کے زیرِ زمین ہیڈ کوارٹر پر لے جائے اور ان کے ساتھ رہے تاکہ جنرل کو اس مشکل صورتحال میں کچھ حوصلہ ملے ـ
دوست جنرل صاحب کو واپس لے کر جا رہا تھا کہ انہیں راستے میں صحافیوں کا جمگھٹ نظر آیا اور انہوں نے حالات کی تازہ صورتحال پر گفتگو کر ڈالی۔
دونوں یعنی دوست اور جنرل زیرِ زمین ہیڈ کوارٹر پہنچ چکے دوست ساتھ بُت بنا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ آخر جنرل کا اصلی اور درست چہرہ کون سا ہو گا؟ تھوڑی دیر گزری اور بیرا چائے کا خوان لے کر کمرے میں داخل ہوا دوست نے بات شروع کرنے کا موقع غنیمت جانا اور بولا کہ جنرل صاحب میری بات مانیں تو آپ حقیقت پسندی سے کام لیں ضد چھوڑیں یہ بات ملک عوام اور ہم سب کےلیے بہتر رہے گی۔
دوست کی بات جنرل نے اَن سنی کر دی اور جواب دینے کی بجائے بولا کہ شمال سے ہمارے زرد دوست(چین) اور جنوب سے سفید دوست (امریکہ) جلد ہماری مدد کریں گے۔
مشکل وقت میں اوروں سے مدد کی امید! یہ بات جنرل کے منہ سے سنتے ہی دوست کو ہاتھ میں پکڑی چائے کی پیالی بھاری محسوس ہونے لگی دوست نے چائے کو سامنے میز پر رکھ دیا اور پھر مزید گہرائی میں سوچنے لگا ـ کیونکہ جنرل کا دوست ابھی دوسرے چہرے کو صحیح طور نہیں سمجھ پایا تھا جبکہ بات نئے(تیسرے) چہرے تک پہنچ چکی تھی یہ تیسرا نیا چہرہ راستے میں میجر سے گفتگو کے دوران رونما ہوا تھا جب جنرل صاحب سویلین سے زار و قطار رو کر نکلے تھے واپسی پر آتے ہوئے راستے میں ان کی صرف صحافیوں سے گفتگو نہیں ہوئی تھی بلکہ ایک مورچے پر میجر سے جنگی صورتحال کے بارے بھی احوال لیا تھا جنرل کے سوال کے بعد میجر صاحب نے صورتحال کے بارے بتایا تھا کہ سر میں تو ٹھیک محسوس کر رہا ہوں مگر جوان سمجھتے ہیں کہ ان کی تعداد میں اضافہ کیا جانا ضروری ہے اور اس کے ساتھ انہیں مارٹر اور سٹین گنیں بھی میہا کی جائیں۔
جنرل صاحب میجر کی یہ بات سن کر اسے جھاڑ پلاتے ہوئے بولے کہ احمقانہ باتیں بند کرو اور سپاہیوں کو بتاؤ کہ جنگیں سپاہیوں کی تعداد اور ہتھیاروں سے نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے قوتِ بازو پر جیتی جاتی ہیں ـ ماضی کے خاص زمانے کی حقیقت بیان کرنے کا مقصد ہرگز کسی ادارے پر بد اعتمادی پیدا کرنا نہیں لیکن آئینے میں موجود اصل عکس دکھانا ضرور ہے کیونکہ لازم نہیں کہ نتائج وہی حاصل ہوں جو ھم سوچ لیں بعض اوقات نتائج ہماری توقعات سے بدتر بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
ابھی دنیا کے جغرافیے پر وطنِ عزیز پاکستان کو نمودار ہوئے عرصہ ہی کتنا گزرا تھا کہ جب اربابِ بااختیار کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم نے ملک کا نصف حصہ گنوا دیا یہ سب کچھ اچانک پلک جھپکتے ہرگز نہیں ہوا تھا بلکہ گزشتہ تیرہ سال کی عہد شکنی خود غرضی دغا بازی فریب ظلم اور بنیادی حقوق کی پامالی کا حاصل نتیجہ تھا کاش کہ اربابِ بااختیار باز رہتے کیونکہ جو راہ اور طریقے (طاقت) وہ انتخاب کر چکے تھے وہ بلکل درست نہیں تھے درپیش مسائل کا حل ہرگز بندوق اور گولی نہ تھی عوام پر طاقت کے استعمال سے مزید مسائل بڑھے مزید نفرتیں بڑھیں اور نتیجہ ہم سب جانتے ہیں جو شرمندگی اور ذلالت کے سوا کچھ نہیں ہمیں یہ بات کم از کم ضرور سمجھ جانی چاہئیے کہ کوئی ریاست اپنا وجود طاقت کے زور پر ہرگز قائم نہیں رکھ سکتی بلکہ اِسے قائم رکھنے کےلیے عوام کو بِلا تفریق رنگ نسل قوم مذہب اور مسلک بنیادی انسانی اخلاقی اور آئینی حقوق مہیا کرنا پڑتے ہیں۔
ماضی میں خطرہ ہمارے سر پہ منڈلا رہا تھا اور حکمران اس کا اندازہ بھی لگا چکے تھے مگر انہوں نے خود کو اختیار پرستی کی چادر میں لپیٹ لیا اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں مگر ایسا کرنے سے حقائق یا منظر کب بدلے جا سکتے تھے۔
جو ہوا سو ہوا کم از کم اب ہمیں وطن عزیز کی سلامتی اور بقا کےلیے سوچنا چاہیئے ہمیں ماضی کے فیصلوں اور ان کے نتائج کو دیکھ کر پالیسی وضع کرنا ہوگی ـ پاکستانی فورسز کو بیک وقت درجن بھر مشکل محاذوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ چیلنجز جو درپیش ہیں شاید ہی دنیا کی کسی فوج کو ایسے مسائل درپیش ہوں بلوچستان خیبر پختون خواہ سندھ اور پنجاب (ملک بھر) میں مختلف قسم کے مسائل ہیں کہیں فرقہ واریت ہے کہیں لسانیت ہے کہیں دہشتگردی ہے کہیں مذہبی شدت پسندی ہے کہیں سیاسی منطرنامے اور عدالتوں پر غلط طور اثر انداز ہونے کی شکایتیں ہیں کہیں آئینی حدود یعنی مسنگ پرسنز کا معاملہ اور مطالبہ ہے کہیں پر کچھ محفوظ ٹھکانوں کے خلاف قابلِ اثر کاروائی نہ کرنے کا شکوہ ہے اور کہین کہیں تو ان کی پشت پناہی کا الزام بھی ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب مسائل اور شکایتیں اس لیے زیادہ خطرناک نوعیت کے ہیں کیونکہ یہ گلے شکوے اپنے ملک کے شہریوں کی طرف سے ہے جو ان سے متاثر ہو رہےـ ان مسائل کو ختم کرنے کےلیے شروع کیے گئے آپریشنز کو لگ بھگ بیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے ان آپریشنوں میں ایک طرف فورسز کے جوان شہید ہوئے اور دوسری طرف شہروں کے شہر تباہ ہوئے۔
عام لوگوں(پشتونوں) کے کاروبار اور روزگار کے ذرائع بھی متاثر ہوئےـ گھر مکان زرعی زمینیں بھی ان آپریشنوں سے زمین بوس اور بنجر ہوئیں ـ اگر کچھ بچ گیا تھا تو باقی ماندہ کسر ڈرون حملوں نے پوری کر دی جبکہ ان کے اجداد یعنی سابقہ پوری نسل امریکی مفاداتی جہاد کے نام پر فدا کرا دئیے گئے جس وجہ سے یہ موجودہ نسل تعلیم روزگار رہائش اور بنیادی ضروریات تک کو ترستی ہوئی نہایت مشکل وقت گزارتے ہوئے پلی بڑھی ہے اور اب تک ملک بھر میں در بدر بھٹک رہی ہے یہ لوگ جہاں بھی جاتے ہیں انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان سے نامناسب رویہ روا رکھا جاتا ہے۔
اب ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ان متاثرہ لوگوں(خصوصاً پشتون کمیونٹی) کا مدعا ذرا سنجیدگی سے سنا جاتا ان کے مسائل کے حل کرنے میں کسی قسم کی سُستی نہ برتی جاتی اور یہ سب صرف زبانی اور کاغذی جمع و تفریق تک محدود نہ ہوتا بلکہ عملی اقدامات سے عام عوام کو آسانیاں میسر ہوتی نظر آتیں اور یہ نئی نسل اپنی معمول کی زندگی گزارنا شروع کر دیتے مگر افسوس ہے ایسا نہیں کیا گیا اور دن با دن اداروں اور مکینوں میں اعتماد کم ہوتا گیا اس بڑھتی ہوئی رنجش کو کم کرنے کا سب سے بہتر اور آسان راستہ سیاسی حل تھا کہ کسی طرح علاقائی سیاسی شخصیتوں کے اثر و رسوخ کو استعمال میں لایا جاتا انہیں اعتماد میں لے کر مسائل کا حل نکال لیا جاتا مگر ایسا بھی نہیں ہوا جس وجہ سے اب صورتحال کو سنبھالنا ذرا مشکل ہو گیا ہے۔ (ناممکن اب بھی نہیں)۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان اور افواج پاکستان کا بڑا خیر خواہ وہی ہو سکتا ہے جو افواجِ پاکستان اور متاثرہ پشتون بھائیوں کو قریب لائے تاکہ رنجشیں دور ہوں ـ
مزید وقت کا انتظار کیے بغیر اعلیٰ فوجی حکام کو دستور کی حد بندیوں میں کام کرنے کی تنبیہہ کی جائے ـ متاثرہ عوام کو یقین دلایا جائے کہ ریاست کی طرف سے انہیں ہر آئینی حق مہیا کیا جائے گا اس کا عملی آغاز بھی کر دیا جائے تاکہ اعلیٰ افسران اور عوام کو یک جان کرنے اور فریقین کے درمیان غلطیوں اور غلط فہمیوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔