پنشن کے نام پر قومی دولت کی بندر بانٹ،حق دار در بدر

 ارشد سلہری

پنشن بیٹھی روٹی ہے، جو مشقت کے بغیر  ریاست کی جانب سے سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد خدمات کے صلے میں دی جاتی ہے۔ جس کے حق دار بزرگ، بیوگان، بیمار یا معذوری کا شکار لوگ ہوتے ہیں۔ تندرست و توانا اور سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد پھر سے ملازمت یا کاروبار کرنے والے ریٹائرڈ ملازمین اس کے قعطی حق دار نہیں ہیں۔ پنشن صرف بڑھاپے اور مجبوری کا سہارا ہے۔ کاروبار کرنے اور مفت کی بیٹھی روٹی کھانے کا نام پنشن نہیں ہے۔

ملکت خداداد میں سرکاری ملازمت اور پنشن مال مفت دل بے رحم کے مصداق لیا جاتا ہے۔ حکومت اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے رشوت میں ملازمتیں دی جاتی ہیں ۔عوام کی دولت پر قابض چند لوگوں نے قومی خزانے کی لوٹ مار کے لیئے لامتناہی سلسلہ بنا رکھا ہے۔ ریاست اور حکومت اپنے اپنے بنائے گئے طریقوں سے قومی دولت لوٹ رہی ہیں۔ موجودہ حکومت و ریاستی مشینری کے عزائم کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ دنیا کی تاریخ کا پاکستان واحد ایٹمی ملک ہے کہ جو آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی جانب سفر کر رہا ہے۔ اخلاقی بے راہ روی انتہا درجے کو پہنچی ہوئی ہے۔ دو سال کی بچی اور بچہ ریپ کا شکار ہورہا ہے۔ مقدس رشتے پامال کیئے جارہے ہیں۔ اخلاقیات کا تعلق براہ راست ذرائع پیداوار سے ہے۔ فراڈ، نوسر بازی اور ناجائز طریقے سے پیدا روزگار کی اخلاقیات بھی پھر ویسی ہوتی ہیں۔

معاشی صورتحال شدید بحرانی کیفیت میں ہے۔ ایک طرف ناجائز ذرائع سے دولت کے انبار ہیں اور دوسری جانب بے روزگاری کا عفریت۔ خط غربت سرخ لکیر عبور کر رہا ہے۔ بھوک کے ہاتھوں لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ اس ڈانواں ڈول صورتحال میں ریاست بضد ہے کہ ہٹے کٹے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن دی جائے اور قوم کا پیسہ خردبرد کیا جائے۔ کوئی صاحب فکر بتا سکتا ہے کہ دہری ملازمتیں کرنے والے اور اربوں روپے کا کاروبار کرنے والے ماہانہ پنشن کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ آدھے سے زیادہ قومی بجٹ غیرپیداوری اور غیر ترقیاتی اخراجات کی نذر چلا جاتا ہے۔ ہر بارخسارے کا بجٹ پیش کیا جارہا ہے۔عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر صرف اخراجات پورے کیئے جارہے ہیں  مگر منصوبہ بندی اور قومی دولت کی خرد برد کا انسداد کرنے کی طرف دانستہ توجہ نہیں جاتی ہے کیوں کہ قومی دولت کی خرد برد اور لوٹ مار میں مقدس لوگوں کے نام نامی سر فہرست ہیں، جو بیٹھی روٹی کھا رہے ہیں۔

وفاقی حکومت کی تنخواہوں کا بجٹ 431 ارب ہے، اور پنشن 421 ارب روپے ہے ۔ 421 ارب میں فوجی ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن 327 ارب روپے بنتی ہے۔ فوجی ادارہ تیزی کے ساتھ پنشنرز پیدا کرتا ہے۔ فوجی جوان کی کل ملازمت پندرہ سے اٹھارہ سال ہے جبکہ فوجی ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد پھر سے ملازمت کر لیتے ہیں۔ جنرل، کرنل اور میجر بڑے پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ اربوں کھربوں کے اثاثے ہیں۔ بڑی بڑی سیکورٹی کمپنیوں کے مالک ہیں مگر باقاعدگی سے پنشن لینے بھی جاتے ہیں۔ بیٹھی روٹی صرف ان کو دی جائے جو کھڑے نہیں ہوسکتے ہیں۔ دہری ملازمت کرنے والے اور کاروباری ریٹائرڈ لوگوں کی پنشن ختم کرکے بےروزگاری الاؤنس دیا جائے اور جو کھڑے نہیں ہو سکتے، محتاج ہیں ان کی پنشن دگنی کی جائے۔ بیٹھی روٹی کی اس طرح سے بندر بانٹ ملک وقوم کے ساتھ نہ صرف کھلواڑ ہے بلکہ مستحقین اور حق داروں کے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہے۔ صاحب فکر خواتین وحضرات ، سیاسی کارکنان، لکھاری اس اہم مسئلہ پر بھرپور آواز اٹھائیں تاکہ خود پرست حکمران ہوش کے ناخن لیں اور قومی دولت کا بڑا حصہ خرد برد سے بچ سکے۔ے پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ اربوں کھربوں کے اثاثے ہیں۔ بڑی بڑی سیکورٹی کمپنیوں کے مالک ہیں مگر باقاعدگی سے پنشن لینے بھی جاتے ہیں۔ بیٹھی روٹی صرف ان کو دی جائے جو کھڑے نہیں ہوسکتے ہیں۔ دہری ملازمت کرنے والے اور کاروباری ریٹائرڈ لوگوں کی پنشن ختم کرکے بےروزگاری الاؤنس دیا جائے اور جو کھڑے نہیں ہو سکتے، محتاج ہیں ان کی پنشن دگنی کی جائے۔ بیٹھی روٹی کی اس طرح سے بندر بانٹ ملک وقوم کے ساتھ نہ صرف کھلواڑ ہے بلکہ مستحقین اور حق داروں کے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہے۔ صاحب فکر خواتین وحضرات ، سیاسی کارکنان، لکھاری اس اہم مسئلہ پر بھرپور آواز اٹھائیں تاکہ خود پرست حکمران ہوش کے ناخن لیں اور قومی دولت کا بڑا حصہ خرد برد سے بچ سکے۔