پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں!

 وقاص احمد

سوشل میڈیا پر گزشتہ دنوں دو تصاویر گردش کرتی رہیں جس پر یار لوگوں نے ہماری “کامیاب خارجہ پالیسی” کا خوب توا لگایا۔ ایک عکس میں پاکستان کے اصلی وزیر خارجہ کسی جگہ صفائیاں دیتے پائے گئے اور دوسرے عکس میں پاکستان کے کٹھ پتلی وزیر خارجہ کسی بیرون ملک ائیرپورٹ پر ایک سنتری کے “فقید المثال” استقبال سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دکھائی دئیے۔ ان دو تصاویر کی بین السطور تشریح ہر چند کہ قریب قریب ہر سمجھ والے شخص کے لیے قابلِ سمجھ تھی مگر پھر بھی ایک ایسے ملک میں جس میں ایک نگوڑے چاند کی تاریخ پیدائش پر بھی اتفاق نہیں ہوتا وہاں ان تصاویر کے سبق آموز ہونے پر کیسے اتفاق ہوتا سو ایک اختلافی نوٹ بھی نظر سے گزرا۔

یہ اختلافی نوٹ اگر تو “میری رائے کے مطابق ایسا ویسا تیسا” قسم کا کوئی تجزیہ ہوتا تو اس میں حرج ہی کیا تھا مگر یہ تجزیہ نگار کچھ اس قسم کے “صحافی” ہیں جو کہلاتے تو اپنے آپ کو ریختہ و فارسی کے استاد ہیں مگر بوجوہ ان کا ذوقِ اختلاف بابا کوڈا کے لیول سے آگے نہ جاسکا۔ صحافتی صحرا میں لگ بھگ تیس برس گزارنے کے بعد بھی ان کی تحاریر میں مخالف یا مخالف کے نکتہ نظر کو لتاڑنے کا انداز ایک 17-18 سال کے نیم خواندہ یوتھیے جیسا ہے، جس میں وہ حریف کی ولدیت میں شکوک شبہات سے لے کر اس کے مطالعہ کی کمی، اس کی جہالت، اس کی چھوٹی سوچ و اپروچ، “عالمی سیاست”  سے اسکی مکمل لاعلمی، “لنڈے کے لبڑل” جیسی اصطلاحات اور ذومعنی جملوں کی بوچھاڑ سے کام لیتے ہیں۔ میرے ممدوح سابقہ مجاہد اور موجودہ ن لیگی پٹواری ہیں جس کے سوچنے کا انداز یوتھیانہ اور فکر قریب قریب بوٹ پالشانہ ہے۔ اب آپ اندازہ کیجیے کہ اتنے سارے تضادات کا مجموعہ یہ شخصیت جب سیاست یا خارجہ پالیسی پر لکھتی ہوگی تو تحریر کس قسم کا ملغوبہ ہوتی ہوگی؟

لکھتے باکمال ہیں اور اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ان کی تحاریر کا طنز اور کاٹ بے مثال ہیں مگر ان کے لکھے کا مطلب کچھ ایسا ہوتا ہے کہ “نوازشریف باکمال بندہ اور میرا لیڈر ہے لیکن چونکہ میرا لیڈر خارجہ پالیسی میں نیم جاہل ہے اس لیئے خارجہ پالیسی کو اس نیم جاہل سے لے کر مکمل جہلاء کے سپرد کرنے کے واسطے اگر عمران خاں کو استعمال کیا گیا ہے تو وہ جائز اور وقت کی ضرورت ہے۔ اب چونکہ عمران نے پاکستان کی معیشت پر تباہی پھیر دی ہے اس لیئے اس کو لانے والے مجرم ہیں لیکن وہ مجرم چونکہ اپنے تئیں امریکہ کا افغانستان میں مکو ٹھپ رہے ہیں۔ اس لیئے یہ جرم قابل توجیہہ ہے۔ پاکستان نے اپنے ہزاروں شہری مروائے اور اپنی معیشت کا کھربوں کا نقصان تو کروایا ہی ہے لیکن امریکہ سے ڈبل گیم کھیلنے میں جو چس آئی ہے، اس سے ہمارے پیسے پورے ہوجاتے ہیں۔ اب اگر آپ کو اوپر لکھی گئی چند سطور کی سمجھ نہیں آئی تو اس میں میرا کچھ قصور نہیں کیونکہ مجھے بھی اس عجیب و غریب ملغوبہ سوچ کی سمجھ نہیں لگتی۔ صاحب کے مطابق “لنڈے کے لبڑل” یہ نہیں جانتے کہ افغانستان میں پاکستان اگر مداخلت نہ کرتا تو روسی ریچھ ہمیں کچا کھا جاتا۔ فرماتے ہیں کہ بھٹو، اس کے بعد جنرل ضیاء و دیگران (خصوصاً جنرل حمید گل) نے انتہائی مہارت سے امریکہ کو استعمال کرتے ہوئے روس کو تباہ و برباد کردیا اور فخریہ انداز میں اس جنرل حمید گل کا ایک مشہور زمانہ ڈائیلاگ دہراتے ہیں کہ اب ہم روس کے بعد افغانستان میں امریکہ کو امریکہ ہی کی مدد سے شکست دیں گے۔ جنرل حمید گل اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں خود فرماتے ہیں کہ پاکستان میں آرمی چیف امریکہ کی مرضی سے لگتا ہے (ہے ناں مزے کی بات)۔ مطلب ہمارے پاس ایک خاص گیدڑ سنگھی ہے۔ جسے ہم نے اپنی تئیں بھنگ میں گھول کر پوری دنیا کو پلایا ہوا ہے۔ ہم آواز دیتے ہیں تو امریکہ ہاتھ باندھ کر ہمارے دروازے پر کھڑا ہوجاتا ہے کہ آئیے! میں روس تباہ کرنے میں آپ کی مدد کروں اور ہم دوسری بار آواز دیتے ہیں تو امریکہ پھر ہمارے دروازے پر کورنش بجا لاتا ہے کہ آئیے! میں وہ آرمی چیف سلیکٹ کروں (بقول جنرل حمید گل) جو افغانستان میں مجھے میری ہی مدد سے شکست دے۔

صاحب یہ سمجھتے ہیں (بلکہ وہ ہم جہلاء کو یہ بتاتے ہیں) کہ امریکہ کو تو ہم گھیرگھار کر افغانستان لائے ہیں تاکہ ہم اسے تباہ کرسکیں۔ غالباً مجبوری یہ ہوگی کہ ہمارے میزائل امریکہ تک نہیں پہنچ سکتے اور ہمارے ایف سولہ کا امریکی ویزہ نہیں لگتا، سو ہم نے امریکہ کو ہی بڑی ہوشیاری سے اپنے پڑوس میں بلا کر اس کے ساتھ ویران پہاڑیوں میں “عین غین” کرنے کا منصوبہ بنا لیا اور امریکہ مردان کے پٹھان کی ٹافی کے لالچ میں بچے کی طرح اس کی انگلی پکڑ کر ویرانے میں نکل گیا۔ صاحب کے مزید خیال میں امریکہ پچھلے دس سال سے ہمارے ترلے مار رہا ہے کہ پلیز! مجھے چھوڑ دو! مجھے جانے دو! لیکن ہم ایک شیطانی قہقہے کے ساتھ کہہ رہے ہیں “میری جان ایسی بھی کیا جلدی! کچھ دیر اور رک جاؤ!”۔ صاحب کے خیال میں ہمارے منصوبہ سازوں نے افغانستان کے پہاڑوں کو دلدل میں تبدیل کر رکھا ہے اور وہ دنیا بھر سے ہاتھی وغیرہ گھیر گھار کر اس دلدل میں پھنساتے ہیں اور پھر پھنسے ہوئے ہاتھی کی بوٹیاں کھاتے ہیں لیکن اپنے منصوبہ سازوں کی ذہانت کے قصیدے پڑھتے ہوئے وہ آپ کو بالکل یہ نہیں بتاتے کہ کیا ویتنام میں بھی پاکستانی منصوبہ ساز بیٹھے تھے۔ جہاں امریکہ کو واضح ہزیمت اٹھانا پڑی تھی، یا پھر کیا عراق میں بھی یہی منصوبہ ساز موجود تھے جو امریکہ کو وہاں سے واپس جانا پڑا، یا پھر جنگ عظیم میں جاپان کا “تورا بورا” کرکے اسے بعد میں چھوڑ دینے کا اقدام بھی امریکی شکست تھا جس کے پیچھے ہمارے جنرل حمید گل مارکہ منصوبہ ساز موجود تھے؟ یا پھر وہ بھی ہمارے “منصوبہ ساز” ہی تھے جن کی بدولت برٹش راج کو نا صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا سے اپنا راج لپیٹ کر اپنے چھوٹے سے جزیرے میں محدود ہونا پڑا تھا؟ یا پرتگال اور فرانس اپنی نوآبادیوں کو بھی ہمارے منصوبہ سازوں کے خوف سے چھوڑ گئے تھے یا پھر عثمانیوں سے مکہ و مدینہ بھی ہمارے گل خانوں نے چھینا تھا؟

آپ کے ذہن میں یہ فتور پک رہا ہے کہ آپ مندرجہ بالا سوال ان صاحب سے پوچھیں گے تو اپنی ذمہ داری پر پوچھیے گا کیونکہ جواب میں سب کچھ ہوگا سوائے جواب کے۔ آپ کو فیس بکی دانشوڑ، ٹرکوں کی بتی کے پیچھے لگنے والی مخلوق، جہالت کے مینار، عالمی حالات سے ناواقفیت اور اسٹریٹجک تعلقات سے ناآشنائی کا طعنہ ضرور ملے گا لیکن یہ نہیں بتایا جائے گا کہ ابھی ہفتہ بھر پہلے ان کے بقول جو چینی اور پاکستانی فوجیں لداخ کے علاقے میں اپنی “غیر معمولی” نقل و حرکت میں مشغول ہو کر بھارتی اخبارات کی “چیخیں” نکلوا رہی تھیں وہ ابھی تک حرکتوں میں ہی مصروف ہیں یا بات کچھ آگے بھی بڑھی ہے؟ (آپس کی بات ہے کہ مجھے ان کے اس چیخوں والے دعوےٰ کا کوئی ریفرنس ڈھونڈے سے بھی نہیں ملا) ۔ کیونکہ صاحب کے بقول ایسے جاہلانہ قسم کے سوالات پاکستان کی پڑھی لکھی مڈل کلاس ہی کرتی ہے جبکہ پاکستان کے اصل محب الوطن بیانیے کو سپورٹ دیہات میں رہنے والا مکمل ان پڑھ شخص ہی کر سکتا ہے۔ (اس فلاسفی کا ذکر انہوں نے اپنے تازہ ترین کالم میں کیا ہے، برائے مہربانی اس یاوہ گوئی کا الزام مجھ پر مت دھریے گا لیکن بہرحال صاحب نے یہ واضع کردیا کہ ہماری “خارجہ پالیسی” کو پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے نہیں بلکہ ان پڑھ طبقے کی سپورٹ حاصل ہے جو ظاہر ہے بوجوہ تنقیدی اور منطقی سوالات اور تجزیہ کرنے سے عاری ہوتے ہیں اس لیے مخصوص پروپیگنڈا کا باآسانی شکار ہوجاتے ہیں)۔

بات چلی تھی دو تصاویر سے،  وہ دو تصاویر جو ہماری “کامیاب” خارجہ پالیسی کے ناکام نتائج کا منہ بولتا ثبوت تھیں لیکن ہمارے 30 سالہ تجربے والے کالم نگار نے ڈمی وزیر خارجہ کے “یک سنتری استقبال” والی تضحیک آمیز تصویر کی “بین السطور تشریح” کچھ ان الفاظ میں کرکے ڈاکٹر فرحان ورک، فیاض الحسن چوہان، زرتاج گل اور فردوس عاشق جیسوں کو بھی اپنی کم مائیگی پر ورطہِ حیرت میں ڈال دیا کہ “اس تصویر میں سب سے اہم چیز پاکستان ائیرفورس کا طیارہ ہے اور یہی اس تصویر کا پیغام تھا”۔ اصلی وزیر خارجہ والی تصویر پر ان کا تبصرہ کیا تھا؟ یہ میں آپ کو کیوں بتاؤں؟ کہ “جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟” اور میں کوئی پاگل تھوڑا ہوں۔