پھر ناامیدی کی لہر
سید امین شاہ
ابھی ہم پرانے گلگت بلتستاں میں ہی ہیں سوائے نئے گورنر کے۔ اور نیا پاکستان بنے ہوئے ساٹھ دن سے زائد ہو چکے۔ یقیناً نیے گلگت بلتستان کا خواب الیکشن سے چند مہینے پہلے ہمیں دیکھایا جائے گا۔ وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت کی وجہ سے گلگت بلتستان میں آنے والے الیکشن میں پی ٹی ائی کو جیتنا ہماری مجبوری ہی سہی لیکن عوام کا اعتماد پی ٹی ائی کی حکومت پر روز بہ روز کم ہوتا جا رہا ہے۔
عمران خان حکومت میں آنے کے بعد گلگت بلتستاں کو بھول ہی گئے تھے۔ پھر اچانک گندم سبسیڈی ختم کرنے کے جھوٹی افواہیں میڈیا پر گردش کرنے لگی تو وزیر خزانہ اسد عمر کو بھی گلگت کی یاد آگئی اور صرف ان جھوٹی خبروں کی تردید کی۔ ویسے تو نئی حکومت کو آئے ہوئے دو مہینے ہوئے ہیں لیکن آج تک گلگت بلتستان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ شاید ان کی حکمت عملی بھی دوسری حکومت کی طرح صرف اقتدار حاصل کرنا ہی تھی۔ پچھلی حکومتیں بھی مختلف لالچ دے کر گلگت بلتستاں کے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھتی رہیں۔
خان صاحب آپ کہی مرتبہ اپنی تقریروں میں کہتے آئے ہیں کہ لیڈر ہمیشہ الیکشن کے بجائے اپنی قوم کی ترقی کا سوچتا ہے۔ آپ کو بہت دور کا بھی نہیں سوچنا تھا، صرف دو سال بعد کے لیے سوچنا تھا تاکہ دو سال کے اندر آپ کی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے گلگت کے عوام کے اندر ایک نئی امید پیدا ہوتی اور آپ کو آنے والے گلگت بلتستان الیکشن میں جلسے کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ عمران خان نے حکومت میں آتے ہی جس طرح پاکستان کے لیے سو روزہ پیکج کا اعلان کیا، اسی طرح گلگت بلتستاں کے لیے اپنی حکمت عملی واضح کرتے۔
آپ جس سی پیک منصوبے کو لے کر دنیا کی مضبوط معاشی طاقت بننے کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ راستہ گلگت بلتستاں کے سینے سے ہوتا ہوا، چین تک پہنچتا ہے، مگر وہاں عوام آج بھی بنیادی حقوق اور شناخت کے لیے ترس رہے ہیں۔ خان صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں پورے پاکستان کا ذکر کیا سوائے گلگت بلتستاں کے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ گلگت کے عوام کی محرومیوں کا خاتمہ کیے بغیر سی پیک کامیابی کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچے؟
حسب روایت گلگت بلتستان کے عوام یہ توقع کر رہے ہیں کہ گلگت میں آنے والے الیکشن میں مختلف پیکج کا اعلان کیا جائے گا اور اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی پی ٹی آئی حکومت بنائے گی۔ کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ پاکستان میں حکومت آتے ہی اپنی پہلی تقریر میں گلگت بلتستان کے لیے اپنی پوزیشن واضح کرتے تاکہ پاکستان کے الیکشن کے ٹھیک دو سال بعد گلگت کے عوام خوشی خوشی آپ کو اقتدار میں لاتے۔ آپ نے تو اپنی پہلی تقریر میں گلگت بلتستان کا نام لینا بھی گوارا نہیں کیا۔
اس ساری صورت حال پر قوم پرست لیڈر نواز خان ناجی کی ایک تاریخی بات یاد آگئی، ’’گلگت بلتستان کی زمین اپنوں کے لیے ہمشہ مصیبت رہی اور دوسروں کے لیے سونا‘‘ بالکل اسی طرح حکومت پاکستان سی پیک کو لے کر اگلے چند سالوں میں دنیا کے طاقتور معاشی ملک بننے کا خواب دیکھ رہی ہے اور گلگت بلتستاں کے عوام ستر سالوں سے حقوق نہ ملنے کا رونا رو رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ گلگت بلتستاں کے عوام کو حقِ نمائندگی دی جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو اس حکومت سے بھی عوام کا بھروسا اٹھ جائے اور آخری آوازِ یعنی اعلانِ بغاوت بلند کر بیٹھے۔