پہنچے ہوئے لوگ

وقاص احمد

“میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ یہ کیسے ہوا، مگر میں تبدیل ہوگیا ہوں۔۔ قریباً ایک سال پہلے، بس اچانک جیسے خدا نے یہ ذمہ داری مجھے سونپ دی کہ اس ملک کے حالات ٹھیک کروں اور میں اب تبدیلی لا کر چھوڑوں گا”۔۔۔ محفل میں موجود سب سے معزز بندے کے کلمات سے اس موضوع کا آغاز ہوا۔

“میرا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں”، ایک نسبتاً کم معزز بندے نے گفتگو جاری رکھی۔ “مجھے اچانک الہام ہوا کہ اپنی بیوی کو طلاق دیکر کسی دوسرے کی بیوی سے شادی کر لو تو اس مملکت خداداد کی تقدیر بدل جائے گی۔ ایسے الہامات تو مجھے اکثر آتے رہتے ہیں۔”

“حیرت ہے میری حال ہی میں گزری قلبی واردات بھی آپ محترم لوگوں جیسی ہے”۔ ایک اور بندہ کھڑا ہوا۔ “میں ایک رات سویا ہوا تھا تو مجھے خواب میں ہدایت ملی کہ جن لوگوں کے ساتھ تمہاری پارٹنر شپ پچھلے چار سال سے ہے وہ ٹھیک لوگ نہیں اور ملک کی سالمیت کے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے ساتھیوں سمیت بغاوت کر دو، سو میں نے کر دی”

ایک کے بعد ایک،محفل میں موجود درجنوں لوگوں نے اسی کشف اور تغیر قلب کا روحانی تجربہ بیان کیا۔ ساری محفل ماشاءاللہ اور سبحان اللہ کے نعروں سے گونج رہی تھی کہ کسی نے محفل میں شامل آخری شخص سے اس کی قلبی واردات کا حال پوچھا۔ الیکٹرانک میڈیا سے منسلک اس کرشماتی شخصیت، جس کی محفل میں موجود “کم معزز بندے” سے تازہ تازہ دوستی ہوئی تھی، نے اپنا روحانی تجربہ کچھ یوں بیان کیا، ” آپ جیسے پاکبازوں اور نیکوکاروں کے درمیان یہ گناہگار اپنی کایا پلٹ کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرماتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ آپ وہ خوش نصیب اور روشن ضمیر لوگ ہیں جن میں حقیقت کا نور بھرنے کے لیے ایک خواب، ایک سوچ، ایک خیال اور ایک لمحہ بھی بہت تھا۔ میں ٹہرا گناہوں میں ڈوبا ایک نالائق، جب خداوند کریم کو میری حالت پر رحم آیا تو انہوں نے میری روحانی رہنمائی کے لیے ایک بابا جی بھیجے۔ ان بابا جی نے میرا ہاتھ پکڑا، میں نے ایک دن اور ایک رات ان کے ساتھ گزارے۔ اس رات میں انہوں نے مجھے روحانی مشاہدات کروائے، حقیقت سے روشناس کروایا، میرا قلب کھول کر اس میں سچائی کی روشنی بھری اور صبح تک میں ایک نیا انسان بن چکا تھا اور آج انہی بابا جی کے صدقے میں آپ لوگوں کے درمیان ہوں”

ساری محفل سبحان اللہ، ماشاءاللہ، حق ہو کے نعروں سے گونجنے لگی۔نعروں کا زور کچھ کم ہوا تو گہری سوچ میں گم محفل میں موجود سب سے معزز شخص نے پوچھا “کیا وہ بابا جی خاکی لباس میں ملبوس رہتے ہیں”. میڈیا پرسن نے حیرانی سے بولا “جی، مگر آپ کو کیسے پتہ؟”

اس سے پہلے سوال کا جواب آتا تو کم معزز بندہ بولا “کیا وہ کالے رنگ کے لمبے بوٹ پہنتے ہیں؟” میڈیا والے بندے کا چہرہ حیرت زدہ ہوگیا مگر اس کے کچھ بولنے سے پہلے تازہ ترین باغیوں کا نمائندہ بولا “مجھے تو ان کا نام بھی معلوم تھا، ابھی ذہن سے نکل گیا، مگر شاید لوگ پیار اور محبت سے انہیں ٹھاکر کہتے ہیں”. اب تو سوال پر سوال شروع ہو گئے۔

“کیا ان کی بڑی بڑی رعب دار مونچھیں بھی ہیں؟”
“کیا ان کے ھاتھ میں ایک بید کی چھڑی بھی ہوتی ہے”۔ “کیا وہ ہرے رنگ کی جیپ چلاتے ہیں”

میڈیا پرسن کی ساری حیرانی رفع ہوگئی، ہنس کر محفل کے معزز ترین بندے کو بے تکلفانہ مخاطب کیا “ابے ڈھکن! تم لوگ اتنا ڈرامہ کیوں کرتے ہو، سیدھا بولو نا کہ تمہاری طرف بھی بابا جی ہی آئے تھے”۔ اور محفل پر اچانک خاموشی چھا گئی۔