ڈسپوزل ڈپلومیسی

عابد حسین

گزشتہ چند دن سوشل میڈیا پر خان صاحب کا امریکی دورہ زیرِ بحث موضوعِ خاص  بنا رہا۔ نئی نئی تاویلیں اور دلیلیں اس دورے کی کامیابی سے جوڑی گئیں کچھ مہربانوں نے خان صاحب کے روایتی لباس اور پشاوری چپل پہن کر صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے کو سراہا اور اس ثقافتی منفرد پہچان رکھنے کو پسند کیا کچھ مہربانوں نے خان صاحب کے امریکی جلسے کو ایک کامیاب سفارتی دورہ ہونے کی دلیل کے طور پیش کیا بہرحال جتنے منہ اتنی ہی دلیلیں اور تاویلیں سننے کو ملیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ خان صاحب کا یہ امریکی دورہ پاکستان کے آئندہ حالات و واقعات سے جڑا ہے اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس پر سوچنے اور سوال کرنے کے دیگر کئی پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کیا امریکہ ہمارے لیے قابلِ اعتماد بھی ہے یا کہ نہیں؟

جبکہ دوسرا اہم پہلو اور سوال یہ ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی میں طفیلی ریاست کے کردار ادا کرنے یعنی اپنے قومی مفادات کی بجائے دوسرے ممالک کے مفادات کی بقا کی جنگ لڑنے سے کب باز آئیں گے؟

جبکہ ماضی کی امریکن پالیسیوں کے نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکہ نے جہاں بھی ڈیرے ڈالے یا تعلقات کے ڈورے وہاں اِسے اپنے مفادات عزیز تھے اور وہاں خانہ جنگی اور فساد کو دائمی تقویت ملی ۔ امریکہ کے بیسیوں دوست ممالک انہی پالیسیوں سے تباہ ہوئے جبکہ ان پالیسیوں میں سینکڑوں ہمنوا شخصیات عبرت بن گئیں ۔ امریکی خود اپنی خارجہ پالیسی کو ڈسپوزل ڈپلومیسی کہتے ہیں یعنی کہ اپنے مفادات کےلیے استعمال کرو اور پھر پھینک دو ۔

اسی بات کو دیکھا جائے تو ماضی میں کئی  ممالک اور شخصیات ڈسپوزل ڈپلومیسی کا شکار نظر آتے ہیں ۔

1950 میں امریکہ کوریا میں داخل ہوا تو نتیجہ شمالی اور جنوبی کوریا کی صورت نکلا ۔

1954میں گوئٹے مالا گیا تو پورا ملک تباہ ہوا ۔ یہ نہ رکنے والا سلسلہ کڑی سے کڑی جڑتا اور بڑھتا آیا ہے 58ء میں انڈونیشیا 59ء میں کیوبا 61ء میں ویتنام 64ء میں کانگو 65ء میں پیرو 69ء میں کمبوڈیا 71ء میں پاکستان 73ء میں لاؤس 80ء میں ایل سلواڈور81ء میں نکاراگوا 83ء میں گرینیڈا 84ء میں لبنان 99ء میں یوگوسلاویہ، اس کے علاوہ بھی ارجنٹائن، ہیٹی ہو، ہوائی ہو، سپین،پورٹوریکو، ساموآ،کولمبیا،ہونڈراس،ڈومینکن ری پبلک، بولیویا، برازیل،کوسٹاریکا، فاک لینڈ، جمیکا، الجیریا، مصر، ایران، کویت، اردن، شام، مراکش، تیونس،یمن، برونڈی، ایتھوپیا،گھانا،گنی بساؤ، کینیا، لائبیریا، مڈغاسکر، موزمبیق، نائیجریا، روانڈا، ساؤتھ افریقہ، یوگنڈا، زائرے، زیمبیا،

زمباوے، یونان، ہنگری،رومانیہ، ترکی، نیپال وغیرہ دنیا کے ایسے ممالک ہیں جو امریکن ڈسپوزل پالیسی کا شکار ہوچکے ہیں۔

دنیا کے جن ممالک میں اس وقت سب سے زیادہ خانہ جنگی/بدامنی نظر آتی ہے وہاں درحقیقت امریکی پالیسی اور مفادات کا تاوان دیا جا رہا ہے کیونکہ ان ممالک نے امریکی دوستی اور پالیسیوں پر سر تسلیم خم کیا ان میں اپنی سلامتی سمجھی۔

تو سوال بنتا ہے کہ کیا پھر سلامت رہے؟ مسائل سے نکل پائے؟ یا مزید دلدل میں دھنستے چلے گئے؟

ان ممالک کے حالات ہمیں سبق سکھانے کو شاید کافی ہیں کہ خون کی ندیاں بہہ گئیں لاکھوں لوگ مارے گئے چند لقموں کےلیے امریکہ پر بھروسے نے انہیں خود لقمہء اجل بنا کے رکھ دیا ۔

مسلم ممالک میں افغانستان اور عراق کی مثال دیکھ لیں کہ یہ دونوں ممالک آج امریکن پالیسیوں پر ایکا کرنے کا ہی خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔

1980میں امریکہ نے افغانستان کی سیاست میں قدم رکھے اور چالیس سال ہونے کو ہیں افغانستان امن کی ایک رات سے بھی محروم ہے ۔ جبکہ عراق نے امریکن مفادات کےلیے آٹھ سال کی طویل جنگ لڑی جس میں بیس لاکھ افراد جاں بحق ہوگئے اور پھر اسی عراق میں امریکہ اپنے سابقہ ساتھیوں(صدام) کو دنیا کے امن کےلیے خطرے کہتے ہوئے  قابض ہوا ۔

ہمارے لیے دوسرا سبق اور مثال امریکی پالیسیوں پر عمل کرنیوالی شخصیات کے انجام کا بھی ہے محمد رضا پہلوی(شاہ ایران) کہ جسے ایشیاء میں امریکہ اپنا سب سے بڑا دوست کہتا تھا مغربی میڈیا اسے امریکن گورنر کہتا تھا بیالیس ہزار امریکی فوج کو شاہ نے ایران میں سفارتی حیثیت دے رکھی تھی دفتر میں گرین فون لگا ہوا تھا ہدایات اور مشورے بغیر کسی رکاوٹ کے ڈائریکٹ تھے مگر پھر شاہ کی امریکہ نواز پالیسیاں شاہ کو لے ڈوبیں ۔ ایران میں تین سال کی بغاوت عروج پر پہنچی تو شاہ نے اقتدار شاہ پور بختیار کے حوالے کر کے ایران سے فرار ہونے میں عافیت سمجھی اس کا خیال تھا کہ اب کی باقی ماندہ زندگی امریکہ سے کیے گئے احسانوں کے عوض امریکہ میں گزارے گا مگر جیسے ہی شاہ کا طیارہ ایرانی حدود سے باہر نکلا تو امریکہ نے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں شاہ مراکش، بہاماس اور میکسیکو گیا امریکہ نے نہ صرف فون تک سننا چھوڑ دیا بلکہ اکاؤنٹس بھی سیز کر دئیے بالاآخر انورسادات کام آیا شاہ کا 80میں انتقال ہوا تو لوگ جنازے تک میں نہ آئے اور اسے وہیں بیڈروم میں امانتاً دفن کرنا پڑا ۔

اناس تاسیوسو کا انجام دیکھ لیں کہ نکاراگوا میں اسے امریکن ایجنٹ مانا جاتا تھا وہاں امریکہ نے کمیونزم کی تحریکوں کو ختم کرنے کےلیے تاسیوسو کو اسلحہ اور ڈالر دئیے یہ امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کے لڑتا رہا 79میں حالات نے کایا پلٹی تاسیوسو نے جیسے ہی ملک سے باہر قدم رکھا امریکہ نے پہچان سے انکار کردیا ۔ تاسیوسو غاروں اور جنگلوں میں چھپ کر زندگی گزارتا رہا اور اسی حال میں انتقال ہوا ۔

چلی کے آمر پنوشے جو کہ منتخب حکمران ایلنیڈو کی حکومت پر شب خون مار کر حکمران بنا، سترہ برس تک امریکہ کے کہنے پر اپنی ہی عوام کو قتل کرتا رہا 90ء میں عوام اٹھ کھڑی ہوئی وہ برطانیہ کی طرف بھاگ نکلا ۔  امریکہ نے پناہ کی درخواست ٹھکرا دی پھر برطانوی پولیس نے گرفتار کر کے چلی حکومت کے حوالے کر دیا اس پر مقدمہ بنا 2006میں ہارٹ اٹیک سے دم توڑ گیا ۔

اس کے علاوہ انگولا کا جوناس سیومنی ہو پانامہ کا جنرل نوریگا ہو فلپائن کا فرنینڈ مارکوس ہو یا رہوڈشیا کا بشپ ان سب کا انجام واقعی ہمارے لیے قابلِ غور اور سبق آموز ہے

ان نتائج کو دیکھتے ہوئے جہاں خان صاحب کو نہایت محتاط ہونا ہوگا وہیں عوام کو بھی خان صاحب کے روایتی شلوار قمیض،پشاوری چپل، اور جلسوں میں معروف عوامی بیانیوں پر خوش نہیں ہوناچاہیئے بلکہ اصل محرکات اور عوامل پر نظر رکھنا ہوگی کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے آیا ہم پھر سے طفیلی ریاست کے طور پر کردار ادا کرتے ہوئے امریکی مفادات کو ترجیح دیں گے؟

جبکہ ہم خوب جانتے ہیں کہ ماضی میں امریکی مفاداتی پالیسیوں کا خمیازہ ہم ابھی تک بھگت رہے۔