کراچی کو جواب دو
احمد اشفاق
دسمبر ٢٠١٥ میں کراچی میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے- ایم کیو ایم نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کی- وسیم اختر کے سر پر میئر کا تاج سجا۔ انتخابات سے پہلے روایتی گہما گہمی تھی، سوشل میڈیا اپنی اپنی جماعتوں کی سپورٹ سے بھرا پڑا تھا- ہم مخالفین کے بے بنیاد الزامات سے بیزار تھے سو ہم نے اس کا جواب دینے کی ٹھانی- ویڈیو کی صورت اس کا جواب دیا جس کے بعد مخاطب کردہ لوگ بھی رابطہ کرنے پر مجبور ہوئے- حمزہ علی عباسی صاحب نے رابطہ کیا- اپنا موقف بیان کیا ، ہمارا موقف سنا اور اس کے بعد اس گرم ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی ایک کوشش کی۔
میئر اتنے ہی بے اختیار تھے جتنے آج ہیں ، مگر ہم ان کے ساتھ کھڑے تھے- ہمارے عزیز دوست حسان بٹ نے “کراچی کو اختیار دو” مہم کا آغاز کیا- اس مہم میں ہم سب شامل ہوئے اور میئر کے اختیارات کے لئے آواز بلند کی- ہم نے ایک بار پھر حمزہ عباسی سے رابطہ کیا اور گزارش کی کہ تمام تر اختلافات اپنی جگہ لیکن اگر آپ ایک جمہوری فرد ہیں تو کم از کم میئر کی بے اختیاری کے خلاف تو آواز بلند کریں- انہوں نے اس بات کو سمجھا اور ایک ویڈیو بنا کر بھیج دی- یہ سب ذاتی فائدے کے لئے نہیں بلکہ شہر اور اس شہر کے میئر کے لئے کیا جا رہا تھا۔
اسی دوران فکس اٹ کے عالمگیر صاحب نے اپنی شعبدے بازی بھی شروع کر دی تھی۔ میڈیا بھی انہیں کوریج دے رہا تھا- کچھ روز بعد انہوں نے نیپا پر گٹر کے ڈھکنے لگانے کا اعلان کر دیا اور میڈیا کے وہاں آنے کا بھی انتظام ہو گیا- یہ فقیر ایم کیو ایم کے بہت سے دوستوں سے رابطے میں تھا- خاکسار نے ایک سے زائد اشخاص سے رابطہ کر کے وسیم اختر صاحب کو یہ پیغام پہنچایا کہ حضور یہ شخص میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے اپنی پروجیکشن کر رہا ہے اور آنے والے کچھ دنوں میں اپنی پارٹی کی بھی کرے گا- آپ نامزد میئر ہیں آپ کو میڈیا زیادہ توجہ دے گا آپ فقط اتنا کیجئے کہ جس روز عالمگیر نیپا پر موجود ہو آپ بھی وہاں پہنچ جائیں- اس کو اپنے برابر میں کھڑا کریں اور میڈیا کے سامنے کہیں کہ تم زبردست کام کر رہے ہو، شہر کا درد رکھتے ہو، مگر یہ تمہارا کام نہیں ، یہ ہمارا کام ہے- آؤ ہمارا ساتھ دو ، اپنی توانائی ہماری مدد کرنے میں صرف کرو، ہمارے اختیار کے لئے آواز بلند کرو تاکہ یہ کام جو تم کر رہے ہو وہ ہم کر سکیں- عرض کی کہ اگر عالمگیر آپ کی بات مانے گا تو آپ کا فائدہ ہے اور اگر نہ مانے تو اس کا نقصان ہے ، خود ہی expose ہو جائے گا- یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ اس کواتنی اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
دن گذرتے گئے، بائیس اگست ہو گئی، ایک نئی ایم کیو ایم بن گئی۔ مزید دن گزر گئے پاکستان میں دو ایم کیو ایم بن گئیں- پیسے مل گئے ، پیکج آ گیا مگر شہر کا حال بد سے بدتر ہو گیا- الطاف حسین نے بھی تمام تر اختلافات کے باوجود اپنے حامیوں سے کہہ دیا کہ وسیم اختر کو کام کرنے دیا جائے ، مگر نہ انھیں کام کرنا تھا نہ انہوں نے کیا۔ آج یہ حال ہے کہ جس میئر کے لئے ہم نے آسمان سر پر اٹھائے رکھا وہ کہیں نظر نہیں آتا- اس کے چیئرمین ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں- کوئی کہتا ہے چھ ارب کا حساب نہیں دیا تو کوئی کہتا ہے کسی کو گاڑی دلا دی- ان کے اپنے ہی لوگ کہتے ہیں کہ میئر کی رات کی مصروفیات انھیں دن میں کام کرنے سے روکتی ہیں- کوئی کہتا ہے میئر کے پاس وسائل نہیں تو کوئی کہتا ہے ول نہیں- بہادرآباد والوں کے لئے میئر فرشتہ ہے، پی آئی بی والوں کے لئے ابلیس ہے- ہاں لیکن دونوں گروپس فنڈز کی کمی کا رونا ضرور روتے رہے ہیں۔
دو دن پہلے شہر کا کچرا اٹھوانے کے لئے چیف جسٹس نے میئر کو چندہ جمع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ گزشتہ برس اعلی عدلیہ کے لئے منظور شدہ غیر ترقیاتی بجٹ میں لگ بھگ سات فیصد کا اضافہ ہوا- جس کے بعد یہ بجٹ تقریباً ٢ ارب بنا- پنجاب حکومت نے اپنے وہاں عدلیہ کے لئے ١٨ ارب کا بجٹ مختص کیا- یہاں چندے کا مشورہ دینے سے بہتر ہے کہ اپنے بجٹ سے کچھ رقم دے دیں جس کا اختیار آپ کو ہے یا پھر وزارت خزانہ یا وزیر اعلی کو حکم دے کر ہنگامی بنیادوں پر صفائی کے لئے فنڈز دلوا دیں- چیف صاحب یہ بھی دیکھ لیجئے کہ آج کراچی میں ایم کیو ایم کے دو دھڑوں نے دو مختلف جلسے کیے ہیں- ذرا ان کو طلب کر لیں… پوچھ لیں کہ ان جلسوں پر کتنی لاگت آتی ہے- یہ پیسا جلسوں میں کیوں استعمال ہو رہا ہے- عوام پر یا شہر پر کیوں نہیں لگ رہا؟ میئر کو بلا کر پوچھیں کہ اپنے کنوینر کو چھ ارب کا حساب نہیں دیا، ہمیں تو بتا دو یہ مال کہاں لگایا؟ اور اگر چندہ ہی لینا ہے تو ان ایم کیو ایم والوں سے ہی لیں جن کے پاس سیاست کے لئے پیسے ہیں لیکن کارکنان کی ضمانت اور شہر کی ترقی کے لئے صرف دعوے ہیں- زبانی اور کھوکھلے دعوے-
کراچی کو اختیار دو کے بعد آج ضرورت کراچی کو جواب دینے کی ہے۔ ہم سب یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ یہ تماشا کب تک جاری رکھیں گے؟ کب تک اپنے ووٹرز کو (جنہوں نے کسی اور کے نام پر آپ کو ووٹ دیا تھا) دھوکہ دیتے رہیں گے ؟ کراچی جواب مانگتا ہے، کراچی کو جواب دو۔