کرسمس مبارک
مہناز اختر
مسیحی برادری کو تہہ دل سے کرسمس، عيد ميلاد المسيح اور عيد ميلاد سعيد مبارک ہو۔ خداوندکریم آپ کی مسرّتوں کو دوبالا کرے (آمین)۔ 24 دسمبر کی شام سے 25 دسمبر کے دن تک دنیا بھر میں مسیحی برادری یسوح مسیح یعنی عیسیٰ عليه السلام کا جشن ولادت مناتی ہے۔ قوموں کے تہوار اور خصوصاً مذہبی تہوار ثقافتی رنگینیوں سے مزیّن اور تقدّس سے گُندھے ہوئے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مذہبی تہواروں کے موقع پر قوموں کے چہروں پر خوشی کے ساتھ ساتھ تعظیم کا رنگ بھی نمایاں ہوتا ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی خوشی کا اظہار کھل کر کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے لوگ مذہبی تہواروں کے موقعوں پر من پسند پکوان، ذاتی آرائش و زیبائش اور گھروں اورمحلّوں کی سجاوٹ کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ گھروں اور عبادت گاہوں پر خصوصی عبادات کے ساتھ دعائیہ تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ ملک و قوم کی ترقّی و خوشحالی کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں اورمسرّت و شادمانی کے نغمے گنگنائے جاتے ہیں۔
آج کل سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اور گروپس میں مذہبی تہواروں کے موقع پر یہ رجحان خاص طور پر نظر آتا ہے کے ان تہواروں اور ان سے جڑی مقدس ہستیوں کے حوالے سے نازیبا باتیں کی جاتی ہیں۔ تاریخ کا غیر ضروری پوسٹ مارٹم کرکے جی توڑ کوشش کی جاتی ہے کہ کیسے ان تہواروں کوباطل ثابت کیا جائے۔ جیسے ہمارے یہاں ایک فضول بحث چھڑ جاتی ہے کہ مسیحی برادری کو Merry Christmas کہنا یا کرسمس کی تقریبات میں شامل ہونا، جائز ہے یا نہیں۔ دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر مذاہب کے منکر، ملحد اور مسیحیت مخالف گروپس اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی جانب سے ایسی باتیں کی جاتی ہیں جو مسیحی برادری کے لیے دل آزاری کا باعث بنتی ہیں۔ اسی طرح ہم مسلمانوں کوجشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر سخت کوفت اٹھانی پڑتی ہے، جب مسلمان آپس میں جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منانے پر ایک دوسرے کو بدعتی قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب اسلام مخالف گروپس بھی عیدالاضحیٰ اور دوسرے اسلامی تہواروں کے موقعوں پر مورچہ بند ہو جاتے ہیں۔ ایسی حرکتیں ماحول کی خوشگواریت کو ناگواریت میں تبدیل کر دیتی ہیں۔
اتحاد بین المذاہب اور مذہبی رواداری کا بنیادی اصول صرف اتنا ہے کہ ’’آؤ اس بات کی طرف جو ہم میں مشترک ہے‘‘۔ تمام ادیان کا مشترکہ پیغام خلق خدا سے محبت ہے مگر نفرت کے بیوپاری اختلاف کے ذریعے انسانوں کو تقسیم کرنے کا کاروبار کرتے ہیں اور نتیجاً معاشرے میں عدم برداشت اور عدم رواداری کے رویے پروان چڑھتے ہیں۔ ادیانِ عالم میں قدر مشترک بنیادی اخلاقیات ہیں جو ہر جگہ معروف ہیں اختلاف صرف منکرات پر ہے۔ مگر عوامی اجتماعات میں ان منکرات پر مباحثہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ ادیان عالم انسانیت کا درس دیتے ہیں اور تمام بنی نوع انسان کو ایک کنبہ تصور کرتے ہیں اور یہی نظریہ اقوام عالم کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کرنے کے لیے مظبوط دلیل فراہم کرتا ہے۔
لاؤزی نے سینکڑوں برس پہلےِ مسیحیت و اسلام سے قبل ایک گر کی بات کہی تھی کہ ’’غیر حکیمانہ رویوں کا جواب بھی حکیمانہ طریقے سے دو‘‘۔ آج دنیا میں مذہبی عدم برداشت کا رویہ انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ خصوصاً جنوبی ایشیا میں یہ رویہ متشدّد ہوتا جا رہا ہے۔ ہندو، مسلمان اور مسیحی ایک دوسرے کے نشانے پر ہیں۔ توہین مذہب کی آڑ میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر بے گناہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان حالات میں بین الاقوامی اور ملکی سطح پر تکریمِ مذاہب کے قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے جس کی بنیاد نفرت اور انتقام کے بجائے مذہبی رواداری اور برداشت پر رکھنا چاہیے۔
دنیا کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصّہ کرسمس کے موقع پر جشن منا رہا ہے تو ہم سب کو ان کی خوشی کا احترام کرنا چاہیے۔ ابراہیمی مذاہب بنی نوع انسان کو آدم و حوّا کی اولاد اور ایک خاندان کا تصور کرتے ہیں۔ ایسے ہی ’’الخلق عیال اللہ (تمام خلق اللہ کا کنبہ ہے)‘‘ ( بیہقی شریف ) اور ” واسودھیوا کْٹومبکم (تمام خلق ایک کنبہ ہے)” (مہا اپنشد) کا پیغام بھی یہی ہے۔ جب تمام مذاہب اس بات کے داعی ہیں کہ تمام انسان آپس میں اخوت کےرشتے میں بندھے ہوئے ہیں تو کیوں نہ ہم سب انفرادی اور اجتماعی طور پر اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دیں اور ایک دوسرے کی خوشی میں خوش ہو کر محبتیں تقسیم کریں اور پاکستان کو حقیقتاً ایک مثالی ریاست بنانے کی کوشش میں اپنا کردار ادا کریں۔ کہتے ہیں کہ ’’محبت فاتح عالم ہے‘‘ تو آئیں محبت سے دلوں کو فتح کرنے کے مشن کا حصہ بنیں۔
تمام مسیحی بھائی بہنوں کو کرسمس کی ڈھیر ساری مبارک باد