کرپشن کی جڑ کہاں ہے؟
ولید بابر ایڈووکیٹ
بیرسٹر حمید بھاشانی نے ”کرپشن اور جمہوریت کا تعلق کیا ہے؟” کے عنوان سے بہت خوبصورت، مدلل اور جامع تحریر لکھتے ہوئے کرپشن کا جمہوریت کے ساتھ جو رشتہ جوڑا ہے وہ بہت بنیادی نکتہ ہے۔ ہمارے اکثر باشعور دوست بھی اسے سمجھنے سے قاصر ہیں اور ہر وقت سول حکمرانوں کی کرپشن کے قصے کھولے بیٹھے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں کرپشن ایک سوچی سمجھی منظم سازش کے تحت پاکستانی سماج میں شامل کی گئی ہے۔
قیام پاکستان کے وقت لیڈر شپ مضبوط تھی مگر جناح، لیاقت علی خان اور سہروردی کے بعد پاکستان کے پاس سکینڈ لائن یا متبادل لیڈر شپ میسر نہ تھی جس باعث فوج اقتدار پر قابض ہو گئی اور اس کے بعد جو بھی قیادت آئی ( بھٹو کو چھوڑ کر) اس کو کرپشن میں رنگ کر فوج نے ہی اسے تیار کیا۔ (بھٹو کی کرپشن سیاسی تھی)۔ اس کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو سیاسی قیادت نااہل اور کمزور ہو اور وہ ہر وقت فوج کے سامنے سرنگوں رہے۔ فوج جب چائے سیاسی نظام کی بساط کرپشن کے نام پر لپیٹ دے۔ دوسرا مقصد فوج کی اپنی کرپشن کو چھپانا اور ایک معتبر ساخت قائم کرنا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت سے ہی فوج کا حجم اور وسائل پر دسترس پاکستان کی کل آبادی کے تناسب سے زیادہ تھا۔ لہذا فوجی اخراجات پورے کرنے کے لیئے پاکستان کے پہلے بجٹ میں غلام محمد نے وفاقی بجٹ میں سے 75 فی صدی حصہ دفاع کے لیے مختص کیا جبکہ تعلیم کے لیئے ایک ڈھیلا بھی نہ رکھا گیا۔ سول انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، تعمیر و ترقی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ کے لیئے انتہائی کم حصہ مختص کیا گیا۔ تب سے آج تلک وفاقی بجٹ میں سب سے بڑا حصہ فوج کا ہی رہا ہے۔ اپنے مفادات کی نگہبانی کے لیئے فوج نے لمبے دورانیہ تک اقتدار اپنے ہاتھوں میں رکھا اور جب کبھی عوامی ردعمل، بین الاقوامی دباؤ یا خارجی حالات میں ( جیسا کے بنگال جنگ میں ناکامی اور 90 ہزار فوجیوں کی قید کے وقت) اقتدار چھوڑنا پڑا تو حکومت اپنے بغل گیر حاشیہ برداروں کے سپرد کر کے بلواسطہ اقتدار میں شراکت قائم رکھی۔
جو بھی سیاسی حکمران برسر اقتدار آیا فوج کی آشیرباد سے آیا اور جس کسی نے اختیارات یا فوج کے سیاسی، سماجی و معاشی اثرورسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی اسے کرپشن کے چارج میں حکومت سے باہر پھینک دیا۔ فوج یا خود اقتدار پر قابض ہو گئی یا کسی دوسرے پالتو وفادار کے حکومت سپرد کر دی گئی۔ جمہوریت کو کمزور کرنے اور اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیئے ہمیشہ کرپشن کا راگ الاپا گیا اور کرپشن کا دائرہ اختیار سیاسی انتقام،جوڑ توڑ،حکومت سازی اور اپنے معاشی مفادات کو برقرار رکھنے کے لیئے سیاسی قوتوں پر ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ پاکستان کی تمام حکومتوں کی برطرفی اور مارشل لاء کا نفاذ کرپشن کے نام پر ہی کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کرپشن گنوانے جیسے عمل میں مکمل شریک رہی ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کے پاکستان کی عسکری قیادت و دیگر ادارے کرپشن سے مبراہیں۔ درحقیقت عسکری قیادت سیاسی قیادت سے زیادہ کرپشن میں ملوث رہی ہے۔ جب بجٹ کا بڑا حصہ دفاعی اخراجات پر صرف ہوتا ہے تو یقیناً اس میں کرپشن کا حجم بھی زیادہ ہو گا۔ مثال کے طور پر اگر سو میں سے بیس روپے ایک شخص کو اور باقی اسی روپے دو سو افراد میں تقسیم کیئے جائیں تو زیادہ پیسے کس کے ہاتھ آئیں گئے؟ مزید براں ملٹری اینک کی مصنفہ ڈاکٹر عائشہ کے مطابق پاکستان فوج کی اندرونی معشیت 15 ارب پاؤنڈ ہے۔
فوج کی کرپشن کی داستان اس لیئے پبلک نہ ہو سکی کہ آج تک فوج کا آزادانہ احتساب نہ ہو سکا۔ فوجی قیادت کی کھربوں ڈالر مالیت کی جائدادیں سامنے آ چکی ہیں مگر مجال ہے کہ کوئی انکوائری ہوئی ہو؟ مثال کے طور پر سب سے شریف سمجھے جانے والے فوجی سربرا جنرل پرویز اشرف کیانی کے 4 ارب ڈالر مالیت کی آسٹریلیا میں جائداد کے قصے زبان زد وعام ہیں مگر کیا کاروائی ہوئی؟ اللہ رسول اور راحیل شریف کے بینر آویزاں کرنے والوں سے کون پوچھنے کی ہمت کر سکتا ہے کہ راحیل شریف نے سبکدوشی پر 863 کنال اراضی اور سعودی عرب میں نوکری کس حیثیت میں قبول کی؟ کیا سعودی عرب کی نوکری ملکی راز افشاں کرنے کے عوض تو نہیں؟
کرپشن اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ کے لیئے کرپشن کا قلع قمع ناگزیر ہے اور کرپشن کے خاتمے کی اولین بنیاد اقتدار سے بلواسطہ یا بلاوسطہ فوجی شراکت داری کا خاتمہ، آزادانہ الیکشن، جمہوری حکومتوں کا تسلسل، تعلیم کا فروغ، طبقاتی تفریق کا خاتمہ، آئین پر عمل درآمد، صوبوں کے حقوق کا تحفظ، اور اداروں کے آزادانہ کام کی ضمانت لازمی شرائط ہیں۔