کوٹہ سسٹم
حیدر راجپر
تقسیم کے بعد ہندوستان میں نچلے طبقے کے لوگوں کو Mainstream میں لانے کے لئے وہاں کوٹہ سسٹم بنایا گیا، تاکہ قابلیت کم ہونے کے باوجود بھی انہیں تعلیم اور ملازمتوں کا موقعہ مل سکے اور پھر ایک مرتبہ جب وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں تو قابلیت کی بنیاد پر روزگار اور داخلہ دیے جائیں۔ اسی طرز پر پاکستان میں بھی 1948 کو لیاقت علی خان نے کوٹہ سسٹم متعارف کرایا۔ انہوں نے ایک مدت کیلئے وہ کوٹہ سسٹم صوبوں کی بنیاد پر نافذ کیا تھا لیکن اس وقت جو کوٹہ سسٹم کی بھیانک شکل سندھ میں موجود ہے اس کا آغاز 1971 میں بھٹو کے دور سے ہوا، جس میں سندھ کو دو حصوں یعنی شہری اور دیہی میں تقسیم کیا گیا۔
آج سندھ میں ایک جانب اس کوٹہ سسٹم کے خلاف لوگ آپ کو چیختے ہوئے دکھائی دیں گے اور دوسری جانب کچھ لوگ اس نظام کو بہترین کہتے ہوئے۔ اس نظام کو بہترین سمجھنے والے عام طور پر یہ دلیل دیتے ہیں کہ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کوٹہ ناگزیر ہوجاتا ہے، ورنہ تمام طبقات کے ساتھ انصاف نہیں ہو پائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ریاست اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے عوام کی قابلیت کو دفن کیسے کرسکتی؟ یہ بات درست ہے کہ ایک نوزائیدہ مملکت میں کچھ عرصے کے لئے ایسے سسٹم متعارف کروائے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ہم اوپن میرٹ کو بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں کوٹہ سسٹم کے خلاف بات کرنے والے ہر شخص کو ایم کیو ایم کا حامی بول کر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔
گزشتہ ماہ کی بات ہے جب میں ایک دوست کے ساتھ بیٹھا تھا ، دونوں اخبار پڑھ رہے تھے کہ اچانک اس کی نظر ملازمتوں کی بھرتی کے اشتہار پڑی تو کہنے لگا دیکھیں یہ کراچی کے سول ہسپتال میں آسامیاں خالی ہیں ، میں درخواست جمع کروا دوں ؟ میں نے کہا کہ ہسپتال کراچی کا اور تم اندرون سندھ سے تعلق رکھتے ہو یہ کیسے ممکن ہے ؟ اس نے وہ اخبار میرے ہاتھ میں دی اور مجھے دیکھنے کو کہا ، میں نے غور سے دیکھا تو اس اشتہار میں اکثر نوکریوں کے لئے دیہی سندھ کا ڈومیسائل درکار تھا جبکہ مقامی لوگوں کے لئے چپڑاسی اور نچلے درجے کی نوکریاں اور ان کی تعداد بھی بہت کم تھی۔
میں نے اس دوست سے سوال کیا کہ اگر تمہیں دوسروں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت دے دی جائے تو تم کیا کروگے ؟ وہ کہنے لگا کچھ سمجھا نہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ کراچی کی آبادی ، وہاں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار کے لئے دربدر دیکھنے کے بعد اس اشتہار کو دوبارہ دیکھو گے تو بات خودبخود سمجھ آجائے ۔ وہ دوست مجھے ایم کیو ایم کا حامی بول کر چلا گیا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قابلیت کے دشمن نظام کے خلاف بات کرنے کے لئے ایم کیو ایم سے تعلق ہونا یا مہاجر ہونا ضروی نہیں بلکہ اس تعصب کی پٹی کو آنکھوں سے اتارنا ضروری ہے جو کوٹہ سسٹم کو ایک اچھا نظام سمجھنے والوں نے باندھ رکھی ہے ، اگر وہ پٹی اترگئی تو ہر کوئی اس قاتل نظام کے خلاف بات کرنے لگے لگا ۔