کھیل ہے جنگ نہیں، جنگ ہے کھیل نہیں

عاطف توقیر

سن 1971 میں ہم نصف ملک ہار بیٹھے تھے مگراسی سال ہسپانوی شہر بارسلونا میں ہاکی کا ورلڈ کپ پاکستانی ٹیم نے اپنے نام کر لیا تھا۔ اسپین میں اس ہاکی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پاکستان نے بھارت کو شکست دی تھی اور وہاں اس وقت رواں تبصرے پر مامور بھارتی مبصر سردار جسدیو سنگھ نے اس ہار پر اپنے کمنٹ میں کہا تھا کہ پاکستانی بہت عجیب قوم ہیں، جنگ کا میدان ہو تو کھیل کی طرح کھیلتے ہیں اور ہار جاتے ہیں، کھیل کا میدان ہو تو جنگ کی طرح لڑتے ہیں اور جیت جاتے ہیں۔

حالت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے ٹی وی چینل اس وقت ایک جنگ کا سا منظر پیش کر رہے ہیں اور میڈیا پر ایک دوسرے کو گھٹیا اور حقیر ثابت کرنے کے لیے الفاظ کا چناؤ انتہائی خوف ناک حد تک نفرت انگیز ہے۔ انسانوں کی آبادی کے لحاظ سے یہ خطہ انتہائی گنجان آباد ہے، جہاں بھوک، افلاس، غربت، تعلیم، صحت، سلامتی اور جانے کیا کیا مسائل ہیں، مگر کرکٹ کے میچ کے موقع پر یہ تمام اہم معاملات ایک طرف اور کرکٹ کا میدان ایک طرف دکھائی دیتا ہے۔

دنیا بھر میں کسی کھیل کے موقع پر اپنی پسندیدہ ٹیم کی حمایت کرنا اور حوصلہ بڑھانا ایک عمومی عمل اور صحت مندانہ سرگرمی ہے، مگر اس کے لیے مخالف ٹیم اور قوم کے لیے حقارت آمیز جملوں کے استعمال کی بجائے کیا ہی بہتر ہو کہ دونوں ممالک کے مبصرین میچ کو میچ کی طرح پیش کریں۔

کھیل میں جو ٹیم بہتر کھیلتی ہے اور جسے بہتر میدانی صورت حال میسر ہوتی ہے وہ جیت جاتی ہے، یہ نہ کوئی مذہبی لڑائی ہے، نہ قومی، نہ ملکی، نہ نظریاتی اور نہ ہی عسکری۔ کرکٹ سے محبت بلکہ کسی بھی کھیل سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک بہتر اور جان دار میچ کی خواہش کی جائے۔ اپنی ٹیم کو بھرپور انداز سے سپورٹ کیجیے مگر اس معاملے میں اس حد تک آگے نہ بڑھ جائیے کہ ہار پر دکھ ٹی وی ٹوٹنے یا دل کا دورہ پڑنے کی صورت میں برآمد ہو یا کرکٹ کے میدان کی یہ لڑائی پھیل کر سرحدوں پر ایک دوسرے پر مارٹر گولے پھینکنے کی صورت میں دکھائی دے۔

نفرت خود ایک مذہب ہے اور اس کی پیروکاری سے بچیے۔ انسانیت اور محبت کو فروغ دیجیے اور کھیل کو کھیل سمجھیے۔ ان دونوں اقوام کو غربت، افلاس، بھوک، ننگ، تعلیم، صحت، پینشن، فرسودہ رواج اور جانے کون کون سی سماجی، سیاسی اور معاشرتی برائیوں اور کوتاہیوں سے لڑنا ہے۔ وہاں ایک دوسرے سے جیتنے کے لیے اتنا ہی زور لگائیے، تو لطف آ جائے۔

ایشیا کپ کا یہ کرکٹ میچ ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے، جب دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش بھارتی حکومت نے تسلیم کر کے مسترد کر دی اور بھارتی فوج سربراہ پاکستان کو ’سبق سکھانے‘ کا اعلان کر رہے ہیں۔ ایسے میں ہمارے ہاں بیانیہ یہ ہے کہ جیسے ہم کرکٹ میچ جیت کر یہ لڑائی جیت جائیں گے۔ حالاں کہ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح اپنے ملک کو جمہوری، طاقت ور اور اقتصادی سرگرمیوں کی آماج گاہ بنائیں۔ کس طرح ہمارے ہاں بہترین ہنرمند افراد موجود ہوں اور کس طرح ہمارے ہاں سائنس، تحقیق اور جستجو کے نئے راستے کھول کو قوم کو ناقابل تسخیر بنایا جائے۔

میری نگاہ میں پاکستان کی کرکٹ میں ہار یا جیت سے زیادہ اہم یہ ہے کہ میرے ملک کا ہر بچہ اسکول جائے، میرے ملک سے پولیو کا خاتمہ ہو، میرے ملک میں ہر بے روزگار شخص کو سماجی مدد دستیاب ہو، میرے ملک میں ہر شخص کو تحفظ اور سلامتی کا احساس نصیب ہو، میرے ملک میں ہر شخص کو صحت کی بہترین سہولیات میسر ہوں، میرے ملک کو دنیا ایک ترقی یافتہ اور جدید ملک کے طور پر دیکھا کرے اور میرے ملک کا پاسپورٹ دیکھ کر کوئی غیرملکی شک اور خوف کی نگاہ کی بجائے فخر اور تمکنت کی نظر ڈالا کرے۔

ہم نے کرکٹ کو اس حد تک سر پر سوار کر لیا ہے کہ اب کرکٹ کا میچ ہار جائیں تو لگتا ہے سب کچھ ہار گئے اور سب کچھ ہار جائیں تو لگتا ہے کرکٹ کا میچ ہار گئے۔