’’کیا تم نے واقعی توہین پر مبنی مواد شائع کیا تھا، بتا دو اور کوئی نہیں سن رہا‘‘
عاطف توقیر
میں نے انٹرویو کے بعد ریکارڈ آلات بند کرتے ہوئے رہائی پانے والے ایک گم شدہ بلاگر سے کہا کہ اب تمہارا انٹرویو ریکارڈ نہیں ہو رہا اور اب یہ گفت گو صرف میں سن رہا ہوں۔ اب بتاؤ کہ کیا واقعی بھینسے یا توہین سے متعلق مواد نشر کرنے والے سوشل میڈیا صفحات سے تمہارا کوئی تعلق تھا، تو وہ کہنے لگا، ’’عاطف بھائی، یقین کیجیے۔ میں موچی نامی پیج سے جڑا ہوا تھا۔ ہمارے پیج پر غالصتاﹰ سیاسی باتیں ہوتی تھیں۔ ہم عسکری پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے تھے، مذاق اڑاتے تھے، مگر ہم نے اپنے پیج پر کبھی مذہبی نوعیت کے مواد کو جگہ نہیں دی۔ نہ یہ ہمارا علاقہ تھا۔‘‘
میں نے دو تین مرتبہ سوال گھما پھرا کر بھی پوچھا، مگر لہجے میں ایک خاص تکلیف اور تھکن کے احساس کے ساتھ جواب ہر بار یہی ملا۔
میں خود شاعر ہوں اور لفظوں سے میرا تعلق بہت گہرا ہے۔ میں کسی بھی شخص سے بات کروں، تو الفاظ کے اندر کی گتھیاں بھی آ کر مجھ سے باتیں کرنے لگتیں اور لفظوں میں جھوٹ کی آمیزش ہو، تو لفظ خود آکر بتا دیتے ہیں۔
اس بلاگر نے بتایا کہ کس طرح وہ کرایے کا مکان تلاش کر رہا تھا اور ایک گھر دیکھ کر جوں ہی باہر نکلا، اسے کے چہرے پر کپڑا چڑھا کر اسے اغوا کیا گیا۔ کس طرح اسے ایک فوجی مرکز لے جایا گیا، کس طرح اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، پوری پوری رات سونے نہ دیا گیا اور پھر تشدد کے کچھ ایسے بھی طریقے جو یہاں بتائے نہیں جا سکتے۔ اس دوران اس سے اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے پاس ورڈز (خفیہ الفاظ و اعداد) لے کر ان کی چھان پھٹک کی گئی اور ساتھ ہی ساتھ خان دان میں ایسی خبریں پہنچائی گئیں کہ ان کے گھر ٹوٹ جائیں۔
میں یہ تمام باتیں سنتا رہا۔ میں فقط دکھ کا اظہار کر سکتا تھا۔ میں نے وہ انٹرویو اس یقین کے ساتھ نشر کیا تھا کہ شاید اس سے ہمارے لوگوں کی آنکھیں کھلیں گی۔ الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں اور کسی بھی مسلمان، چاہے وہ کتنے بھی نچلے درجے ہی کا کیوں نہ ہو بلکہ مذہب پر سوالات تک بھی کرتا ہو، وہ پیمبر اقدس کی شانِ اطہر کی توہین کا تصور تک نہیں کر سکتا۔
فوج ایک ادارہ ہے، اس کی پالیسیوں پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ انسانوں کے معاشروں میں کسی بھی فرد یا ادارے پر تنقید کرنا، سوال کرنا، حتیٰ کہ پالیسیوں کا مذاق تک اڑانا عمومی افعال ہیں۔ ایسے افعال کو رد کیا جا سکتا ہے، دلیل سے ان کی نفی کی جا سکتی، ان کی تنسیخ ہو سکتی ہے، مگر کسی شخص کو اختلاف کی بنا پر عقوبت اور تشدد کا شکار کرنا، نہ صرف غیرقانونی عمل ہے بلکہ اگر اس میں ریاست یا ریاستی مشینری ملوث ہو، تو یہ ایک بھیانک جرم بھی ہے۔
انسانوں کے معاشرے میں متنوع بیانیے رکھے جاتے ہیں، تاکہ مختلف افراد کھل کر بات کریں، ایک دوسرے سے اختلاف کریں اور نئے زاویے پیدا ہوں تاکہ معاشرہ اجتماعی طور پر ترقی کرے۔ انسانی تاریخ میں ایسا ایک بھی معاشرہ سلامت نہیں رہ سکا یا ترقی نہیں پا سکا، جہاں بیانیہ فقط ایک ہو یا جہاں متنوع بیانیوں کے لیے جگہ نہ چھوڑی جائے۔
محترم شوکت صدیقی صاحب کی عدالت میں کچھ عرصے قبل ان بلاگرز اور توہین آمیز مواد سے متعلق مقدمہ پہنچا تھا تو وہ ’آب دیدہ‘ ہو گئے تھے، میرا حالاں کہ اس پر یہ کہنا تھا کہ کسی جج کو ہرگز ہرگز آب دیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان کے سامنے قانون موجود ہے اور وہ جج کی کرسی پر عدل و انصاف کرنے بیٹھے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ انصاف اور عدل سے کام لینے ہوئے، دیگر جذبات کو ایک طرف کر دیں۔
آج اس آب دیدہ ہو جانے والے جج نے دوبارہ مقدمے کی سماعت شروع کی، تو ایف آئی اے نہیں انہیں بتایا کہ ان بلاگرز کی جانب سے توہین آمیز مواد کی اشاعت سے متعلق حکام کے پاس ثبوت نہیں ہیں۔
ادھر مجھے پیمبر اقدس کا ایک فرمان یاد پڑتا ہے اور وہ شاید نہایت ضروری اور جدید انسانی معاشرت سے بے حد مطابقت رکھنے والا ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ عدل کے وقت شک کی صورت میں فائدہ ملزم کو دے دو، ایک گناہ گار کا اس شک سے بچ جانا برا نہیں بلکہ ایک بے گناہ کو ناحق سزا مل جانا اللہ کی نگاہ میں زیادہ برا ہے۔
میں ہمیشہ اپنے تمام تر مکاتب فکر کے افراد سے یہی کہتا ہوں کہ وہ اپنا موقف اصولی رکھیں۔ اصول سادہ سے ہے، اگر کوئی شخص جرم کرتا ہے، تو اس پر مقدمہ درج کیجیے، معاملے کی تفتیش کیجیے، ملزم کو حراست میں لے کر عدالت میں پیش کیجیے اور عدالت اگر درست سمجھے، تو وہ اس ملزم کو سزا دے۔ اس دوران جب تک عدالت میں کسی ملزم پر الزام ثابت نہ ہو جائے، اسے بے گناہ سمجھا جائے اور جرم ثابت ہو جائے، تو اس صورت میں اسے مجرم قرار دیا جائے۔
ہمارے معاشرے میں لیکن یہ ایک نہایت بھیانک رسم آن پڑی ہے کہ کسی شخص پر کسی بھی الزام کے عائد ہوتے ہی اسے مجرم سمجھ لیا جاتا ہے اور اس وقت تک سمجھا جاتا ہے، جب تک کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کر دے۔
میں اب اس پورے معاملے میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ بلاگرز جنہیں اغوا کیا گیا، جن کے گھر ٹوٹ گئے، جنہیں ملک چھوڑنا پڑ گیا، جنہیں معاشرتی طور پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جنہیں جسمانی اور ذہنی طور پر شدید اذیت دی گئی اور جنہیں اس تمام تر معاملے میں ایک کرب ناک صورت حال سے گزرنا پڑا، اس کا جواب دہ کون ہو گا؟
کیا اب ان تمام افراد کو اپنے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر معذرت کا ایک جملہ تک نہیں لکھنا چاہیے؟ کیا ان تمام صحافیوں کے اپنے اپنے کالمز میں معافی نہیں مانگنا چاہیے؟ کیا ان تمام میڈیا اینکرز کو اپنے اپنے پروگراموں میں اپنے جملوں پر اپنی شرمندگی کا تذکرہ نہیں کرنا چاہیے؟