کیا مذہبی رواداری سے اسلام کو خطرہ ہے؟
مہناز اختر
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ 22 اگست کے دن کو مذہب یا عقائد کی بنیاد پر تشدد اور ظلم کا شکار ہونے والے افراد کے نام کیا جائے نیز ہرسال یہ دن عالمی سطح پر منایا جائے۔ ایسے ممالک جہاں مذہبی اقلیتیں ظلم و جبر کا نشانہ بنائی جاتی رہی ہوں ان پر مذہبی رواداری کے فروغ کے حوالے سے دباؤ بڑھایا جائے۔ ابھی یہ خبر پڑھ ہی رہی تھی کہ ٹیلیویژن پر پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کا اسکردو کے علاقے دیوسائی استور سے کیا جانے والا خطاب نشر ہونے لگا۔ بلاول بھٹو زرداری کے خطاب کے اولین نعروں نے میرے مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کے خواب پر پانی پھیردیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کی ابتداء یوں کی “نعرہ تکبیر، شرکاء “اللہ اکبر”۔ نعرہ رسالت، شرکاء “یارسول اللہ”۔ نعرہ حیدری، شرکاء “یاعلی”۔ جیئے بھٹو، شرکاء “جیئے بھٹو”۔ مجھے پاکستان پیلپزپارٹی کے منشور کے حوالے سے اپنی یاداشت پر شبہ ہوا اور میں نے فوراً گوگل سرچ کی مدد لی۔ جواب آیا کہ پیپلزپارٹی عقیدہ مساوات انسانی کا پر یقین رکھنے والی بائیں بازو کی جماعت ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ یہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں واحد جماعت ہے جو مذہبی کے بجائے سماجی ایجنڈا رکھنے والی نسبتاً سیکیولرجماعت سمجھی جاتی تھی پر شاید بلاول بھٹو زرداری یہ بات بھول گئے ہیں۔ انہوں نے اس خطاب کے اولین نعروں میں ہی یہ جتادیا کہ یہ خطاب مسلمانان پاکستان کے لیے ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ جس ملک میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں “نظریہ ضرورت” کے تحت دائیں بازو پر کھسکنا جانتی ہوں وہاں مذہبی رواداری اور مساوات کی بات کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ 22 اگست کی طرح فروری کا پہلا ہفتہ اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے مخصوص کیا گیا ہے لیکن ان دونوں مواقع پر پاکستان میں کوئی خاص تقریب یا مثبت ہلچل دیکھنے میں نہیں آئی۔ رواں سال فروری کا پہلا ہفتہ یوں بھی اہم تھا کہ اس موقع پر پوپ فرانسس نے متحدہ عرب امارات کا پہلا دوستانہ تاریخی دورہ کیا۔ یہ دورہ تاریخی اعتبار سے انتہائی اہم اور یادگار دورہ تھا کیونکہ موجودہ پوپ فرانسس نے یہ دورہ آٹھ سو سال قبل خون ریز صلیبی جنگوں کے دوران پوپ فرانسس آسیسی کے دورہ مصر اور سلطان المالک الکامل سے دوستانہ ملاقات کی آٹھ صدوی سالگرہ کے موقع پر کیا۔ دیکھا جائے تو یہ دورہ مسلم اور مسیحی دنیا کے درمیان رواداری کے پل کا کردار ادا کرسکتا تھا لیکن اس انتہائی اہم موقع پر بھی پاکستان کے مذہبی حلقے ہمیشہ کی طرح “اسلام خطرے میں ہے” کا عنوان بنے نظر آئے۔ ہم مسلمان جو دوسرے غیر مسلم ممالک میں ایک سیکولر جمہوری نظام اور مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے لیے دلائل کے پہاڑ کھڑے کردیتے ہیں۔ اس سال صرف اس لیے تشویش میں مبتلا دکھائی دئیے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے مقدس سرزمین عرب پر مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ہے اور اسی مقدس سرزمین پر کیتھولک مسیحی دنیا کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے لاکھوں مسیحیوں سے خطاب کیا ہے۔
آج کل پاکستان میں ماہِ رمضان میں مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کے بہت سارے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سکھ، ہندو اور مسیحی کمیونٹی کے افراد جابجا مسلمانوں کی افطار کا خوش دلی سے اہتمام کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اکثر عیدمیلادالنبی یا محرم کے دنوں میں ٹی وی والے کسی غیر مسلم سماجی شخصیت یا مذہبی رہنما کو پکڑ کر لے آتے ہیں اور ان سے ہمارے نبیﷺ اور امام حسینؓ کی مدحت کروالیتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں کم سے کم میری گناہ گار آنکھوں نے ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا ہے جہاں مسلمان عالم دین نے مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے مذہبی اقلیت کی روحانی شخصیات کے حوالے سے دوچار نیک کلمات کہے ہوں یا ان کی عید و تہوار پر کوئی خیرسگالی کا پیغام دیا ہو۔ صاحبو! ہم سے زیادہ نیکیاں تو اقبال کما گئے کہ رام کو امام ہند، گوتم بدھ کو گوہریک دانہ اور گرونانک کو مرد کامل لکھ ڈالا اور ایک ہی نظم میں گوتم بدھ، ابراہیم اور گرونانک کو اکٹھا کرکے ایک پیج پر لاکھڑا کیا۔
قوم نے پیغامِ گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہرِ یک دانہ کی
آہ! بد قسمت رہے آوازِ حق سے بے خبر
غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
آشکار اُس نے کِیا جو زندگی کا راز تھا
ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا
شمعِ حق سے جو منّور ہو یہ وہ محفل نہ تھی
بارشِ رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی
آہ! شُودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
برہَمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمعِ گوتم جل رہی ہے محفلِ اغیار میں
بُت کدہ پھر بعد مُدّت کے مگر روشن ہُوا
نُورِ ابراہیمؑ سے آزر کا گھر روشن ہُوا
پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
اور دوسری ہی جست میں نظم “رام” میں “ہندی ہیرو” کو امام ہند کہہ ڈالا۔
لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند
سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے رام ہند
یہ ہندیوں کی فکر فلک رس کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند
اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت
مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانہ میں شام ہند
تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا
اب میں کیا کہوں کہ اپنی چار پانچ ہزار سالہ تاریخ پر نازکرنے والے پاکستانی مسلمانوں کے ہیرو محمود عزنوی اور محمد بن قاسم ہیں لیکن ہمارا نصاب رام، گوتم بدھ اور گرونانک کے ذکر سے خالی ہے۔ ہمارا نصاب اشوکا اور چندرگپت موریا جیسے بادشاہوں کے ذکر سے بھی خالی ہے۔
22 اگست کے روز وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا “آج مذہبی بنیادوں پر تشدد کا نشانہ بننے والوں کے پہلے عالمی دن کے موقع پر ہم دنیا کی توجہ بھارت کے جبرواستبداد میں گھرے لاکھوں کشمیریوں کی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں جنہیں توہین و تشدد کا سامنا ہے اور جن کے تمام بنیادی انسانی حقوق سلب کرکے ہر قسم کی آزادیوں سے محروم کیا جاچکا ہے” سوال یہ ہے کہ صرف کشمیری مسلمان ہی کیوں دیگر بھارتی مسلمان بھی بھارت میں مذہبی اکثریت کے نشانے پر ہیں لیکن عمران خان صاحب نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا کیونکہ اس سے پہلے انہیں اور پاکستان کے دیگر ارباب اختیار کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا پڑتا۔ افسوس کہ اس دن پاکستان میں کسی نے مذہبی جبر اور نسل کشی کا شکار ہزارہ کمیونٹی کی بات نہیں کی۔ افسوس اس بات کا بھی ہوا کہ اس دن پاکستان میں قادیانی برادری کو ریاستی سطح پر مذہبی آزادی سے محروم کر دئیے جانے پر بات نہیں ہوئی، اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات ہے کہ 22 اگست کے روز مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھادئیے جانے والے افراد خصوصاً مشعل خان اور سلمان تاثیر کو بھی کسی نے یاد نہیں کیا، افسوس کہ اس دن پاکستان میں کسی نے مذہبی دہشت گردی کی مذمت نہیں کی اور نہ اسلام کے نام پر کیئے گئے بم دھماکوں اور قتل وغارت گری کا کوئی ذکر ہوا۔ بلاشبہ آج دنیا بھر میں مسلمانوں کو ان کے عقیدے کی وجہ سے تشدد اور تعصب کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ روہنگیا، ایغور، فلسطینی اور کشمیری مسلمانوں کو ضرور یاد کیجیے لیکن ساتھ ساتھ کشمیری مسلم عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ستائے گئے کشمیری پنڈتوں کو بھی یاد رکھیے، یہ بھی یاد رکھیے کہ داعش نے شام میں یزیدی کمیونٹی کے ساتھ کیا کیا، یہ بھی یاد رکھیے کہ بوکوحرام اور الشباب جیسی “اسلامی” تنظیمیں مسیحی افریقیوں کے ساتھ کیا کررہی ہیں۔ مودی اور آرآرایس پر لعنت بھیجتے وقت جنرل ضیاء اور دیگر مسلمان آمروں کے کارناموں کو بھی یاد رکھیے۔ مذہبی رواداری کی تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ یہ یاد رکھیے کہ دنیا میں پائی جانے والی موجودہ مذہبی انتہا پسندی میں ہم نے اسلام کا نام لے کر کتنا حصہ ڈالا ہے؟
ہاں یہ بھی سوچیے کہ آج مسلم دنیا کا کونسا حکمران ایسا ہے جو مذہبی رواداری کے معاملے میں کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسینڈا آرڈن کی برابری کرسکے؟