گلگت بلتستان کو بنگلہ دیش نہیں پاکستان بناؤ
علی اقبال سالک
سپاہی سجاد علی کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقہ اسکردو سے ہیں وہ باڈر پر وطن کی تحفظ کرتے ہوئے دشمن ملک کے افواج سے سینے پر تین گولیاں کھانے کے بعد سی ایم ایچ راولپنڈی میں زیر علاج تھے۔ ایک خاتوں صحافی اس سے سوال کرتی ہیں ۔گولیاں کھانے کے بعد بہت تکلیف ہوئی ہو گی؟
وہ مسکراتے ہوئے کہتا ہے نہیں محترمہ میں بہت خوش ہوں پاکستان کی بقا کے لئے میرا خون کام میں آ گیا دوسر ی سوال میں صحافی سوال پوچھتی ہیں اس لڑائی میں آپ کی جان جا سکتی تھی ؟ وہ بڑے پر اعتماد لہجے میں بولتے ہیں کوئی مسلہ نہیں تھا وطن کی تحفظ کے لیے کئی جانیں قربان ہو سکتی ہیں یہ تو ایک جان ہیں صحافی تیسری سوال کرتی ہے آپ کی امی نے آپ کا حالت دیکھ کر کیا کہا ؟بہت روئی ہوں گی!زخمی نوجواں کہتے ہیں نہیں محترمہ میری امی نے کہا میرا بیٹے نے قوم اور وطن کے خاطر گولیاں کھائی ہیں مجھ فخر ہےاس کے بعد صحافی آخری سوال کرتے ہوئی پوچھتی ہیں۔
آپ بہت دلیر لگتے ہوں لگتا ہے پٹھان ہو ۔زخمی غازی مسکراتے ہوئے معصومیت کے ساتھ عرض کرتا ہے نہیں میں بلتی ہوں اس پروگرام کو بندے خاکسار نے 13 اگست کی شب استاد محترم حسن شاد صاحب کے فیس بک وال پر دیکھا رہا تھا ۔وطن کی تحفظ کے لیے ۳ گولیاں سینے پر کھانے کے بعد زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا یہ غازی بول رہا تھا میں بلتی ہوں ۔اس دوران میرے ذہن میں وہ ویڈیو کلب کی باتیں یاد آنے لگی جس میں جرنیل شعیب اس بلتی قوم کو دہشت گرد اور سی پیک کے لئے طالبان سے زیادہ خطرناک قرار دے رہے ہیں میں سوچنے لگا جرنیل شعیب کی بیان کو سنے کے بعد گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے سپاہی سجاد علی جیسوں کے دل پر کیا بیتی ہوگی جو اس وطن کی حفاظت اور محبت میں سرشاد مختلف محاذوں پر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔
ہماری قومی المیوں میں سے ایک بہت بڑا الیمہ یہ ہے ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ۔بنگلہدیش ہم سے جدا ہوا مگر اس سانحے سے کوئی سبق آموز سبق حاصل نہیں کیا۔ ابھی تک نہ سویلین حکومتین اپنی غلطی مانے کو تیار نہ ہی ہمارے ادارے اپنی کوتاہی کو منانے کے لیے تیار ہے ۔معروف اینکر پرسن حامد میر بنگلہ دیش کے بارے میں ایک پروگرام میں کچھ کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ،،جرنیل خادم راجہ جو کہ اپریل 1971 میں جرنیل نیازی کو چارچ دیا تھا وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں جب جرنیل نیازی وہاں پر آئی تو اپنے فوجی افسران سے گفتگو میں یہ کہا ،میں اس قوم کی نسل کو بدلو گا یہ مجھے کیا سمجھتے ہیں جرنیل راجہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں جب یہ بات کی تو جرنیل نیازی نے فوجی افسران کے سامنے تو وہاں پر ایک بنگالی افسر تھا اس کا نام میجر مشتاق وہ بھی وہاں پر موجود تھا اس سے یہ بات بہت بری لگی میرا کمانڈر میرا سامنے کہہ رہا ہے کہ میں اس قوم کا نسل بدلو گا ۔تو میجیر مشتاق صاحب واش روم چلے گئے اور اپنی سر پر گولی دے ماری۔
جرنیل راجہ نے لکھا وہ میجر مشتاق بڑاا اچھا افسر تھا اور بڑا محب وطن افیسر تھا لیکن وہ جرنیل نیازی کے الفاظوں کا نشانا بن گیا َ آج مجھے بھی لگتا ہیں جرنیل شعیب کے ان الفاظوں سے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے کئی فوجی افسران کو میجر مشتاق کی طرح یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہونگے ۔جس ملک کی حفاظت پر ہمارے کئی سینئرز نے اپنی جانیں قربان کی اور ہم ابھی تک دشمن کے سامنے اس مٹی کی تحفظ کے لیے کھڑے ہیں لیکن پھر بھی میری قوم کو دہشت گرد کیوں سمجھا جارہا ہے اور میرے اوپر شک کیوں کیا جاتا ہے میں اس قوم کا فرزندہ ہوں جس نے سوات میں دہشت گردوں کا خاتمہ کیا لیکن آج مجھے دہشت گرد کہا جاتا ہے، ایک اور دانشور جناب حسن نثار کہتے ہیں ۔بنگلہ دیش ہمارے شاہی افسران کے راویوں کی وجہ الگ ہو گیا ہمارے حکمران طبقہ اور شاہی افسران حسن نثار صاحب کے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہیں گلگت بلتستان والوں کے ساتھ کئی ان کا روایہ بھی ایسا تو نہیں۔
ویسے موجودہ چیف سیکریڑی کا راویہ سے (جو کہ خپلو میں ایک شہری کی جانب سے ایک نرس کی ڈیمانڈ پرآگ بگولہ ہواتھا )لے کر ابھی جرنیل شعیب کے راویوں کا جائیذہ لے تو ہمارے شاہی افسران کے روایے ایسا ہی ہیں جیسے بنگالیوں کے ساتھ اس وقت کے پاکستان افسران کا روایہ ہوتا تھا یہ روایے دن بدن وہاں کے عوام میں پاکستان کے بارے میں نفرت پیدا کرنے کی وجہ بن رہا ہیں نہ کہ محبت بہرحال اب ہمیں تاریخ سے سبق سیکھانا ہوگا۔ اب ہمیں بار بار تاریخ پر ظلم نہیں کرنا ہوگا اور جرنیل شعیب کو کو چائیے وہ پوری قوم کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے اگر خدانخواستہ کچھ عناصر اس طرح کے فعل میں ملوث ہے تو شواہد کے ساتھ قوم کے سامنے بے نقاب کرے ااگر شواہد نہیں ہے تو پھر گلگت بلتستان کے محب وطن شہریوں سے معافی مانگے اور سیکورٹی اداروں کو چاہئے وہ اس معاملے کو سنجیدہ لے لیں ۔کئی جرنیل نیازی کی شکل میں میڈیا وار میں جرنیل شعیب چھپا ہوا تو نہیں کیونکہ پورے گلت بلتسان کے عوام یہ نعرہ اور مطالبہ کر رہے ہیں ۔گلگت بلتستان کو بنگلہ دیش نہیں پاکستان بناؤ۔