ہم کیا کرنا چاہ رہے ہیں؟
وقاص احمد
بہت سے لوگوں کو ایک ہی دفعہ میں خوش کرنے کی کوشش آخیر میں سب کی ناراضگی پر منتج ہوتی ہے۔ اور خصوصاً جب آپ کی کوشش کی بنیاد اس مفروضے پر ہو کہ آپ انتہائی ہوشیاری سے سب کو بیوقوف بنا سکتے ہیں۔
حکومت شغلیہ نے 100 دن، مطلب لگ بھگ 3 ماہ تک لوگوں سے تنقید نا کرنے کی اپیل کی ہے جس کو میں کسی حد تک جائز بھی سمجھتا ہوں کہ ہر حکومت کا نئی نویلی دلہن کی طرح یہ حق ہوتا ہے کہ اس سے اس کے ہنی مون پیریڈ میں بے جا توقعات وابستہ نا کی جائیں۔ لیکن اگر دلہن کے گن ابتدائی دنوں میں ہی سامنے آنے لگ پڑیں تو سوال اور تنقید کو تین ماہ کے لیے اٹھا نہیں رکھا جا سکتا۔
یوں تو ن لیگ کا دور حکومت شروع سے ہی ہنگامہ خیز تھا مگر 2016 سے 2018 تک دور تو ایک ڈرامہ کی طرح گزرا۔ پانامہ لیکس، جس کو ن لیگ کی حکومت سی پیک کے خلاف سازش قرار دیتی تھی تو جملہ اہل انصافیاں کے ہمراہ مجھے بھی اس تاویل پر ہنسی آجاتی کہ مجھے یہ تو یقین تھا کہ اس معاملے کے پیچھے وہی قوتیں ہیں جس نے پاکستان کی کسی آذاد سولین حکومت کو کامیاب نہیں ہونے دیا لیکن اس میں کسی دوسرے ملک یا ممالک کی دلچسپی سمجھ سے باہر تھی۔ حالانکہ حکومتی وزراء نے ڈھکے چھپے اور ایک دفعہ تو غالباً خواجہ آصف نے تھوڑا فرنٹ فٹ پر آکر بھی کہہ دیا تھا کہ سی پیک سے کچھ برادر اسلامی ملک بھی نالاں ہیں۔ جب انٹرویو کرنے والے نے تفصیل چاہی تو خواجہ صاحب نے مذید وضاحت سے کہہ دیا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ پانامہ کیس میں یو اے ای سے آنے والے خطوط کیوں آرہے ہیں۔ آج جب تاریخ کا دھارا ایک موڑ مڑ چکا ہے اور اس کے چھوڑے ہوئے نشانات سے پانامہ کے الزامات کی گرد بیٹھنا شروع ہوگئی ہے تو ہمیں اب تقریباً صراحت سے معلوم ہو گیا ہے ان بودے الزامات کو قانونی ہیر پھیر، بے انتہا پروپیگنڈا اور چند ٹیڑھے میڑھے ایم ایل ایز کی مدد سے پروان چڑھایا گیا تھا جن کی حقیقت بس اتنی تھی کہ اس میں سے اقامہ جیسے ایک مضحکہ خیز جواز پر نواز شریف کا تاحیات نااہل کرنے کا بندوست کیا جا سکا۔
عمران نیازی صاحب جب سے اس کرسی پر بٹھائے گئے ہیں تب سے اب تک کی پراگرس میں اہل پٹوار کو چند درجن گاڑیاں، 4 کباڑ ہیلی کاپٹر اور 8 بھینسیں ہی نظر آئی ہیں لیکن جس طرف بہت کم لوگوں کی توجہ ہے وہ ہیں ہمارے خارجی امور۔ پچھلے پانچ سال میں سی پیک ہمارے خارجہ امور کا اہم ترین موضوع تھا کہ اس کی معاشی اور سٹریٹیجک اہمیت تمام معاملات سے زیادہ تھی۔ اس پورے دور میں بیسیوں صحافیوں نے اس موضوع پر کھل کر بات کی کہ ن لیگ (یا نوازشریف) کا اسٹیبلشمنٹ سے اصل پھڈا سی پیک پر لیڈ رول کا ہے۔ فوج اپنے تجارتی مفادات کی وجہ سے سی پیک کا تمام کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی تھی اور نوازشریف کا استدلال یہی تھا کہ یہ نا تو فوج کا کام ہے اور نا ہی اسے دیا جا سکتا ہے۔ ملکی ترقی کے اس اہم ترین منصوبے کے لیے جس افہام و تفہیم کی ضرورت ہے وہ فوج لا ہی نہیں سکتی کیونکہ کوئی مانے نا مانے، بے جا سیاسی مداخلتوں کے بعد، خصوصاً چھوٹے صوبوں کے لیے فوج ایک متنازعہ ادارہ بن چکا ہے جو ڈنڈے کے زور پر معاملات کو دبا تو سکتا ہے لیکن افہام و تفہیم اس کے لیے نا ممکن کام ہے۔ اور یہ افہام و تفہیم کلی طور پر نا سہی لیکن بہت حد تک ن لیگ کی حکومت نے تمام صوبوں اور مشکل قوم پرستوں کے درمیان پیدا کر کے دکھایا۔
آج آپ پاکستان کا خارجی منظر نامہ دیکھیں، ٹی وی پر واہ واہ کروانے کے لیے خاں صاحب کو جی ایچ کیو میں بلایا گیا، مبینہ طور پر خاں صاحب کو خصوصی پروٹوکول بھی ملا، انصافی دعوؤں کے مطابق پہلی دفعہ کسی وزیراعظم کو اس قابل سمجھا گیا کہ وہ کور کمانڈر میٹنگ کی صدارت کرے، آٹھ گھنٹے کی بریفنگ ہوئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا سی پیک کی مکمل کمانڈ فوج کے پاس شفٹ ہوگئی اور خاں صاحب کو امداد اور چندے جمع کرنے کے کام پر لگا دیا گیا۔ یہ کوئی تجزیہ نہیں، یہ آپ کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں اور تصویریں چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں۔ چین کے صدر سے ملنے کے لیے پاکستان کے آرمی چیف کوئی درجن بھر افسران کے ساتھ چین پہنچے ہوئے ہیں اور خاں صاحب خادم حرمین شریفین کے سامنے بیٹھے سعودیہ کے تحفظ کی قسمیں کھا رہے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ اس حد تک اس عہدے کی بے توقیری؟ کیا کام ہے کسی ملک کے آرمی چیف کا کہ وہ دوسرے ملکوں کے سربراہان سے تجارتی معاملات پر گفتگو کرتا پھرے؟
سی پیک پر کام چل رہا تھا اور انوسٹر جو کہ چین خود تھا وہ کام کی رفتار سے مطمئن تھا۔ پھر ایک ادارے کے تجارتی مفادات اتنے اہم کیوں ہو گئے کہ صرف ایک سولین حکومت کو زچ کرنے کے لئے ایک ملکی مفاد کے منصوبے کو کبھی پروپیگنڈا کا نشانہ بنایا گیا، کبھی اس کو کرپشن کا ذریعہ بتایا گیا، کبھی اس کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہہ دی گئی اور کبھی اس کو رول بیک کرنے کی خبریں تک چلوا دی گئیں اور آخر میں اب اس ادارے کا سربراہ چین میں اسی منصوبے پر میٹنگ کر رہا ہے۔ خاں صاحب، یہ منصوبہ پاکستان کا منصوبہ تھا، یہ منصوبہ اس ملک کے عوام کی بھلائی کا منصوبہ تھا اور اس ملک کے قائد فی الوقت آپ ہیں، آرمی چیف یا چیف جسٹس نہیں۔ اخبار میں چھپنے والی وہ فوٹو آپ کی حکومت کے اختیارات پر ایک طمانچہ ہے۔
آج تک تو غدار و بیکار سولینز کو صرف دفاعی اور خارجہ امور میں بولنے کی اجازت نہیں تھی اور آپ کی حکومت شغلیہ میں اب تجارتی امور بھی ہمارے ہاتھ سے چلے گئے؟ کیا آپ کوئی شیر خوار بچے ہیں کہ آپ کے ہاتھ میں آپ کی اماں عظمیٰ اور ابا وقار نے ڈیم کا ایک چھنکنا پکڑا کر آپ کو مصروف کر دیا ہے اور اب حکومت کے نچلے سے نچلے لیول کے اختیارات پر یہی دو حضرات قبضہ کئے بیٹھے ہیں؟
سعودی عرب والے معاملے پر آجائیں۔ آپ اور آپ کی ہمنوا دیگر اپوزیشن جماعتوں کے پر زور احتجاج پر نواز حکومت کو باوجود ان کی خواہش کے، سعودی عرب میں فوج بھیجنے سے انکار کرنا پڑا۔ جس کا نتیجہ سعودی عرب، یو اے ای اور ہماری اپنی فوج کی ناراضگی نکلا۔ جمہوری نواز شریف نے سیاسی نمائندگان کے احترام میں نا تو سعودیوں سے اپنی ذاتی تعلقات کی پروا کی نا ہی فوج کی خواہش کا پاس کیا جس کی وجہ سے اس کو وہ ذاتی نقصانات بھی برداشت کرنا پڑے جس میں وہ آج مقدمات کا سامنا کر رہا ہے۔ فواد چوہدری نے دو دن پہلے ایک انٹرویو میں نوازشریف کے رہائی سے متعلق ایک سوال میں اس حقیقت کا واشگاف اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے کہ “جو لوگ نواز شریف کی رہائی میں سعودی عرب میں ہونے والی کسی ڈیل پر باتیں کر رہے ہیں ان کو شاید سعودیہ اور نوازشریف کے تعلقات کا اندازہ نہیں”. میں دہرا دوں، نوازشریف کی بھرپور خواہش تھی کہ سعودیہ کی خواہش پوری کی جائے (اور اس کی وجہ کچھ تاریخی حقائق ہیں جن پر بات پھر کبھی سہی) ہمارے جرنیل تو ویسے ہی ڈالر کمانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے، یہ صرف اور صرف خاں صاحب اور پیپلز پارٹی تھی جو اس کے مخالف تھے اور نوازشریف نے اپنے مخالفین کے جمہوری اختلاف کے احترام میں اپنی ذاتی تعلقات کی قربانی دی اور آج وہی خاں صاحب اسوقت سعودی عرب اور یو اے ای میں اگر کسی “فقید المثال” استقبال سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سعودیہ اور یو اے ای پہلی نظر میں خاں صاحب کے عشق میں مبتلا ہوگئے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خاں صاحب کو جی ایچ کیو سے بریف کر کے بھیجا گیا ہے کہ ان کو بتاؤ کہ ہمیں فوج بھیجنے پر اعتراض نہیں۔
اس کے عوض آپ کو ڈالر، تیل اور حمایت ملے گی اور سعودیوں کے دوست امریکہ کے نام وزیراعظم عمران نیازی کے اچھے کریکٹر کا سرٹیفیکیٹ بھی جاری کیا جائے گا۔ 10 ارب ڈالر کی انوسٹمنٹ سعودیہ کی طرف سے، واٹر فلٹریشن پلانٹ کا تحفہ اس یو اے ای کی طرف سے جس کا وزیر خارجہ فوج نا بھیجنے پر آپ کو دھمکیاں دیتا تھا اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی بحالی کی خبریں اس امریکہ سے جس نے چند دن پہلے آپ پر پابندیاں لگائیں۔ حضورِ والا وہ انگریزی کا محاورہ یاد کریں۔
“There ain’t no such thing as a free lunch”.
اب مسئلہ اہل یوتھ کا نہیں کہ کل خاں صاحب ابلیس کی عبادت کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دے دیں تو ان میں سے ایک ایک بندہ اگلے ایک گھنٹے کے اندر اندر اس کے توجیہات لیے فیس بک اور ٹوئٹر پر آ دھمکے گا اور شیطان کی عبادت نا کرنے والے کو ہی کفر کے فتوے دے دے گا۔ مسئلہ ان تمام پاکستانیوں کا ہے جن کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کرنا کیا چاہ رہے ہیں۔ مثلاً
1- امریکہ کی براستہ سعودی عرب سی پیک میں مداخلت کو چین کیونکر برداشت کرے گا؟
2- سعودی عرب میں اپنی فوج بھجوا کر ہم اپنے پڑوسی ایران سے کیا بات کریں گے؟
3- پاکستان، ایران، چین اور روس والے اس بلاک کا کیا بنے گا جس پر پچھلے پانچ سال محنت ہوئی؟
4- پاکستان میں سی پیک کو رول بیک کرنے کی باتیں کروانے کے بعد ہمارے آرمی چیف چین کے صدر کو کیا یقین دہانیاں کروانے گئے ہیں اور کس حیثیت میں گئے ہیں؟
5- بھارت کو مذاکرات کی بارہا پیشکش کے بعد ہم کیا آپ کو غدار وطن، مودی کا یار کہیں یا پھر ایک امن پسند لیڈر؟
6- کلبھوشن کا ذکر کیوں نہیں ہو رہا؟ کب ہو گا؟ اس کی پھانسی کی تاریخ کیا ہے؟
7- نواز شریف کا مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا نظریہ آپ کو پسند نہیں تو پھر اس مسئلے کا حل آپ کے پاس کیا ہے؟
7- کنٹرول لائن پر ہونے والی بھارتی جارحیت پر آپ کے لب کیوں سلے ہوئے ہیں؟
8- بھارت اگر دھشت گردی کا معاملہ اٹھاتے ہوئے آپ سے کچھ مطالبات کرتا ہے تو ان مطالبات کو آپ کیسے پورا کریں گے؟
9- دنیا اگر پاکستان کو طالبان کے معاملے میں دوغلی پالیسی کا حامل سمجھتا ہے تو اس تاثر کو آپ کیسے ذائل کریں گے؟
خاں صاحب! پاکستان ان گنت خارجی اور دہشتگردی کے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے جن کی وجوہات خالصتاً ان لوگوں سے جڑی ہیں جنہوں نے آپ کے ہاتھ میں ڈیم کا چھنکنا دے کر گاڑیاں اور بھینسیں بیچنے اور چندہ اکھٹا کرنے پر لگا دیا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ وہ خود بھی آج تک کچھ بھی ڈھنگ سے نہیں کر سکے۔ پاکستان کو آپ کی اس لیڈر شپ کی ضرورت ہے جس کے قصیدے پڑھتے آپ کے جملہ مریدین کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ اٹھیں۔۔۔کمان اپنے ہاتھ میں لیں۔ کم از کم ہمیں یہ پتہ تو چلے کہ ہم کرنا کیا چاہ رہے ہیں؟