ہم ہیں خواہ مخواہ اس میں
وقاص احمد
’’یہ وطن تمہارا ہے۔۔ ہم ہیں خوامخواہ اس میں‘‘
چائے کے کھوکھے پر بجتے ریڈیو پر چلنے والے ایک ملی نغمے کے الفاظ تبدیل کرتے ہوئے اس نے ایک چھبتا سا جملہ میری طرف اچھال دیا۔ میں نے جملے کو دہرا کر اس کا بھرپور لطف لیا اور پھر ہنس کر کہا، ’’یار اب ایسی بھی کوئی بات نہیں، سبھی کا ملک ہے۔‘‘
مگر وہ میری ہنسی کو مکمل نظرانداز کر کے بدستور کہیں دور خلا میں گھورتا ہوا گنگناتا رہا۔
دودھ دہی تمہارا گائے گھوڑے بھی تمہارے، دال دلیہ تمہارا، سبزیاں اناج بھی تمہارے، چائے بھی تمہاری بسکٹ بھی تمہارے، کھاد بھی تمہاری فارم بھی تمہارے، چینی بھی تمہاری، کارخانے بھی تمہارے، نوٹ بھی تمہارا، بنک بھی تمہارے، دوا بھی تمہاری دواخانے بھی تمہارے
سیمنٹ بھی تمہارا، روڈ بھی تمہارے، پراپرٹیاں بھی تمہاری،ڈیلر بھی تمہارے، یہ چمن تمہارا ہے، ہم ہیں خوامخواہ اس میں، اینکر، صحافی تمہارے ٹی وی چینل بھی تمہارے، انصاف بھی تمہارا منصف بھی تمہارے، تمہی گواہ، تمہی وکیل، تمہی قاضی، کوڑے مارنے والے بھی تمہارے، پھانسی دینے والے بھی تمہارے، یہ زمین تمہاری ہے، ہم ہیں خوامخواہ اس میں، داخلی امور تمہارے خارجی امور تمہارے، دوست بھی تمہارے دشمن بھی تمہارے، سٹریٹجک ڈیپتھ بھی تمہاری، طالبان بھی تمہار، سارے “اثاثے” تمہارے بس لاشے ہمارے، یہ ناکامیاں ہماری، وہ فتح کے تمغے تمہارے، حب الوطنی کے میڈل تمہارے، غداری کے فتوے ہمارے، یہ وطن تمہارا ہے، ہم ہیں خوامخواہ اس میں۔
الیکشن ہمارے مگر بندے تمہارے، جیت بھی تمہاری جیتنے والے بھی تمہارے، سارے خسارے ہمارے، سارے بجٹ تمہارے، ذلتیں نصیب ہماری لیکن اونچے شملے تمہارے، یہ وطن تمہارا ہے، ہم ہیں خوامخواہ اس میں، مجرم کو محرم کرو یا محرم کو مجرم، پالیسیاں بھی تمہاری ڈاکٹرائن بھی تمہارے۔ تمہی آقا تمہی مولا تمہی مالک تمہی مختار
اسامہ بھی تمہارے نیشنل ایکشن پلان بھی تمہارے، المختصر
چین و عرب تمہارے ہندوستان تمہارے، بلبلیں بھی تمہاری گلستاں بھی تمہارے۔ یہ چمن تمہارا ہے، ہم ہیں خوامخواہ اس میں۔
گرم چائے کی پیالی اس یخ بستہ تک بندی کی وجہ سے برف ہوچکی تھی اور میں خوف کے مارے دم سادھے اپنے دوست سے لاتعلقی ظاہر کرنے کی ناکام ایکٹنگ کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک ریڈیو سے آواز ابھری، ’’آئیے ناظرین اگلا ملی نغمہ سنتے ہیں۔‘‘
میری جان میں جان آئی کہ شکر ہے کہ بات بگڑنے سے پہلے موضوع تبدیل ہوا۔ نور جہاں کی آواز چائے خانے کی فضا میں پھیلی۔ ’’اے وطن کے سجیلے جوانو‘‘۔
ٹھنڈی چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے میرے دوست نے میری طرف دیکھا پر میں اس کی آنسوؤں میں ڈوبی طنزیہ نگاہ کی تاب نا لا کر چائے کی طرف متوجہ ہوگیا۔۔وہ بڑبڑایا
’’اے وطن کے سجیلے جوانو۔۔ سارے رقبے تمہارے لیے ہیں۔‘‘