ہوا کچھ یوں
شیزا نذیر
ایک بار مجھے الحمرا میں ایک اسٹیج ڈرامے کے چار فری پاس ملے تو میں نے فوراً دوستوں کو میسج بھیجا کہ کون کون جانا چاہتا ہے۔ تین دوست تیار ہوئے تو شام 7 بجے ہم الحمرا تھے۔
ڈرامہ شروع ہوا ” ہوا کچھ یوں”. تقسیم برصغیر کے پس منظر میں لائٹ کامیڈی کے ساتھ رومانوی کہانی تھی جو ایک مسلمان لڑکے راجہ اور لڑکی قرةالعین کی تھی لیکن لڑکی کانگرس کی اور لڑکا مسلم لیگ کا حمایتی ہوتا ہے۔ دونوں کے والدین کا انتقال جلیانوالہ باغ میں ہو جاتا ہے تو لڑکی کو ایک سکھ جبکہ لڑکے کو ایک مسلم بے اولاد جوڑا گود لے لیتے ہیں۔ سکھ باپ لڑکی کو اجازت دیتا ہے کہ جو اس کا دل چاہے وہ مذہب اپنائے تو اس طرح لڑکی بڑے ہو کر اسلام اپناتی ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر دونوں کے والد قتل کر دئیے جاتے ہیں تو صدا کار نے صدا لگائی کہ عینی کے پاس دو آپشن ہیں ایک تو یہ کہ عینی ڈپریشن میں چلی جاتی دوسرا یہ کہ وہ کام میں مصروف ہو جاتی۔ پس اس نے کام میں مصروف ہونا زیادہ بہتر سمجھا۔
’’ہوا کچھ یوں” جوانی کے ناکام عشق کی کہانی تھی۔ جوانی میں راجہ اور عینی کا عشق تین وجوہ کی بنا پر کامیاب نہ ہو سکا۔ پہلی وجہ ان کے سیاسی نظریات تھے، دوسری وجہ رقیب تھا جو عینی کو پسندکرتا یے۔ جب پاکستان بن جاتا ہے تو پاکستان جانے سے پہلے آخری کوشش کے طور پر ایک رات راجہ عینی کو پرپوز کرنے کے لئے پھول لے کر اس کے گھر جاتا ہے تو رقیب صاحب دوازہ کھولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ٹھیک ہے میں یہ پھول ہمارے بیڈ روم میں رکھ دیتا ہوں‘‘۔ رقیب عینی کے گھر کوئی ضروری فائل لینے آتا یے کیونکہ عینی اب اندرا گاندھی جی کی سیکرٹری ہوتی ہے۔ راجہ رقیب کے جھوٹ کو سچ مان کر مایوسی سے واپس چلا جاتا ہے۔
جوانی کا عشق ناکام ہونے کی تیسری وجہ راجہ ہوتا ہے جو اپنی شرمیلی طبیعت کی بنا پر عینی کو آئی لو یو نہیں بول پاتا حالانکہ عینی کئی بار اسے اپنی پسندیدگی کے بارے میں بتاتی ہے۔
جب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو عینی ایک بار پھر ہمت کر کے پاکستان آتی ہے لیکن اس وقت راجہ بڑھاپے کی وجہ سے اپنی یادداشت کھو چکا ہوتا ہے۔ لیکن عینی اب اسے یاد دلاتی ہےکہ وہ محبت کرتے تھے لیکن شادی نہ کر سکے۔ راجہ کو یاد تو نہیں آتا لیکن وہ عینی کی بات پر اعتبار کرتے ہوئے شادی کر لیتا ہے۔ عینی اسے یہ یاد نہیں دلاتی کہ وہ سیاست میں کتنی دلچسپی لیتا تھا بلکہ کہتی ہے کہ وہ سیاست میں نہیں بلکہ کرکٹ میں دلچسپی لیتا تھا۔ لہٰذا بڑھاپے میں عینی اور راجہ سیاست چھوڑ کر کرکٹ میچ دیکھتے ہیں اور ہنسی خوشی رہتے ہیں۔
اخلاقی سبق:
(اخلاقی سبق میں نے اخذ کیا ہے)
۱۔ کسی سانحے کے بعد ڈپریشن میں جانے سے بہتر ہے کہ کام میں مصروف ہوا جائے۔
۲۔ محبت میں زیادہ نظریاتی، فلسفی و سیاسی نہ بنیں۔
۳۔ وقت پر ہمت کر کے پرپوز کریں۔