یہ کڑواہٹ کی باتیں ہیں، مٹھاس ان کی نہ پوچھو تم
عزیر سالار
قومیں اپنی ترجیحات کے مطابق اپنے رجحانات کے مطابق ہی علامات اپنے شہروں میں نصب کرتی ہیں۔ پاکستانی بہت معصوم اور پیاری قوم ہیں لیکن دانستہ طور پر انکی ترجیحات جنگ، غیرت، انتہا پسندی اور عدم برداشت وغیرہ کو بنا دیا گیا ہے۔
ان کے مذہبی اور علاقائی ہیرو لگ بھگ سارے کے سارے جنگجو ہیں۔ ان کی سب سے بڑی تمنا شہادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ پاکستان بھر میں نصب شدہ علامتوں کا تجزیہ کریں تو آپ کو سب سے زیادہ تعداد جہازوں، ٹینکوں، میزائیلوں، تلواروں، گھوڑوں اور بندوقوں کی نظر آئے گی۔
مجھے ذاتی طور پر مجسمے بہت پسند ہیں۔ پاکستان میں کہیں کہیں انسانی مجسمے بھی نصب ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ سبھی جنگجوؤں کے ہیں۔ کم سے کم میرے علم میں نہیں کہ یہاں کسی سائنسدان، ادیب، شاعر، فنکار، فلاسفر، استاد یا کسی بھی تخلیق کار کا مجسمہ نصب ہو۔ یہاں کوئی قلم چوک ہو، تختی گلی ہو، کتاب محلہ ہو، ورق بازار ہو البتہ تلوار چوک، قینچی بازار، گولی مار، خنجر محلہ، بھینس کالونی جیسے ملتے جلتے نام ضرور ملیں گے۔
آپ مغرب میں یورپ کو دیکھیے مشرق میں جاپان کو دیکھیے۔ آپ کو فلسفیوں کے مجسمے نظر آئیں گے۔ سائنسدانوں سے منسوب گلیاں بازار دکھیں گے۔ ادیبوں، شاعروں، استادوں اور مزاحمت کاروں کے چہرے پتھروں پر نقش ملیں گے۔ ہاں چونکہ دفاع بھی بنیادی انسانی ضرورت ہے تو کہیں کہیں جنگجو اور فاتحین بھی نظر آئیں گے۔
لیکن وہ تمام قومیں جن کا دفاعی بجٹ ہم سے کہیں زیادہ ہے جن کی افواج بہت طاقتور ہیں۔ جن کا عزم غیر متزلزل ہے وہاں آپ کو عوام میں جنگی جنون ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔
ہمیں اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پتھروں کا زمانہ نہیں کہ ٹکڑا کر دشمن کو پاش پاش کر دیں یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے اب دفاع صرف عقل سے کیا جاتا ہے جنون سے نہیں۔