آخر کب تک؟
اشفاق احمد
ہمارے ملک کو آزاد ہوئے 71 سال ہو چکے ہیں لیکن ہم آج بھی اس پاکستان کو تلاش کر رہے ہیں، جس کا ’’خواب‘‘ علامہ اقبال نے دیکھا تھا، جس کی تعبیر قائد اعظم نے کی، جس کے لیے قربانیاں ان لاکھوں مسلمانوں نے دیں جو یہ سوچ کر اس ملک میں ہجرت کرکے آئے تھے کہ وہاں ان کو وہ حقوق ملیں گے۔ جن کا تصور تھا کہ وہ متحدہ ہندوستان میں نہیں رہ سکتے۔
قیام پاکستان کے بعد جس طرح سے مسلم لیگ کے لیڈروں کو ملک کی پالیسی سازی سے علیحدہ کر دیا گیا اور جس طرح سے بیورو کریسی اور اشرافیہ کے ایک خاص طبقے کو اس ملک کی پالیسی سازی پر مامور کر دیا گیا، وہ ایک باعث تشویش عمل تھا۔
گورنرجنرل غلام محمد ،سکندر مرزا اور جنرل ایوب وہ افراد تھے، جنہیں آج کی اسٹیبلشمنٹ کا موجد کہا جائے، تو غلط نہیں ہوگا۔ ہم آج بھی بطور قوم اسی گھٹن کا شکار ہیں، جو ہم ایوب، یحییٰ، ضیاءالحق اورمشرف کے ادوار میں محسوسں کرتے تھے۔ ہم سیاسی طور پہ آج بھی اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں فاطمہ جناح اور مجیب کو غدار کہا جاتا تھا، بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا جاتا تھا، بے نظیر کو قتل کر دیا جاتا تھا اور حالیہ نواز شریف کا جس طرح سے کورٹ کا ٹرائل اور پھر فیصلہ۔
اسی طرح میڈیا کی سینسر شپ، ملکی ایجنسیوں کا سیاستدانوں اور دستور کی بات کرنے والوں کو ڈرانا دھمکانا۔کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ ہم مسلسل تیسرے جمہوری الیکشن کے عمل سے گزرے ہیں لیکن ہم آج بھی وہی گھٹن محسوس کر رہے ہیں، جو کسی مارشل لاء دور میں محسوس کی جاتی ہے۔آج بھی ملک کے چند مقتدر ادارے عوامی اداروں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ ہم آج بھی دستور پہ عمل داری کی بات کسی بھی قومی فورم پہ نہیں کر سکتے۔
ہم آج بھی اپنی قومی پالیسی کسی عوامی ادارے کے ذریعے نہیں بنا سکتے بلکہ ایک ایسا ادارہ انہیں ڈکٹیٹ کرتا ہے، جو خود اسی عوامی ادارے کے ماتحت ہے۔
جب ایک سیاستدان ایک سکروٹنی کے مرحلے اور عوام کے ووٹ سےمنتخب ہونے کے بعد بھی قومی پالیسی بنانے کا اختیار نہیں رکھتا تو ایک ایسا ادارہ کیسے رکھ سکتا ہے یہ اختیار، جس کے سربراہان ریٹائر منٹ کے بعد دوسرے ملکوں میں جاکے ملازمتیں کریں اور وہ کسی احتسابی عمل کے ذریعے جواب دہ بھی نہ ہوں۔ جن کاایک فیصلہ ملک کی تقدیروں کےفیصلے کرے اور وہ کسی کو جواب دہ بھی نہ ہوں۔
ہم کب تک ایک کنٹرولڈ ڈیمو کریسی کی خیرات پہ خوش ہو کر ملک میں حقیقی جمہوریت کے شادیانے بجا کے اپنے آپ کو خوش کرتے رہیں گے آخر کب تک؟