آدھی شریعت ادھورا قانون

مہناز اختر

آئین پاکستان : مجلس شوری (پارلیمنٹ) کے ارکان کی بابت احکامات

آرٹیکل 62،  کوئی شخص مجلس شوریٰ کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہیں ہوگا اگر

(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکامِ اسلام سے انحراف میں مشہور ہو

(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہواور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں مجتنب نہ ہو

(و) وہ سمجھ دار اور پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایمان دار اور امین نہ ہو

(ز) کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ ہو

پاکستانی عوام و خواص کو سال 2014 میں اچانک ہی آئین کی شق 62 اور 63  کے تقدس کا احساس ہوا، جس دوران دھرنے میں جناب طاہرالقادری نے اسے مجلس شوریٰ کا رکن منتخب ہونے کے لیے آئینی چھنی قراردیا اور بار بار ’صادق اور امین‘ کے الفاظ کا استعمال کیا۔ نتیجتاً عوام اور خواص دونوں ہی غلط فہمی کا شکار ہو گئے اور یقین کر بیٹھے کے یہ دونوں شقیں عین اسلامی ہیں اور اپنی سادگی میں ’صادق اور امین‘ جیسی پیغمبرانہ صفّات کی توقع سیاست دانوں سے کرنے لگے۔ جبکہ آئین پاکستان میں اس قسم کا کوئی مطالبہ نہیں ما سوائے کہ مجلس شوری کا رکن منتخب ہونے والا شخص بنیادی طور پر سچاّ اور ایماندار ہو سزا یافتہ نہ ہو اور مجلس شوریٰ کا رکن منتخب ہونے کے لیے غلط بیانی کا مرتکب نہ ہوا ہو۔ مگر اس کے برعکس تاثر یہ لیا گیا کہ اس نے کبھی کوئی کرپشن نہ کی ہو اور پیدائش سے لے کر مجلس شوریٰ کا رکن منتخب ہونے تک پاک صاف کردار کا مالک رہا ہو۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کے آئین میں صرف گناہِ کبیرہ پر سوال اٹھایا گیا ہے، یعنی گناہِ صغیرہ کی رعایت دی گئی ہے۔

آئین کی شق 62 میں شامل ان الفاظ (وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہواور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں مجتنب نہ ہو) ’خاطر خواہ‘ اور ’گناہِ کبیرہ‘ کو تشریح کی سخت ضرورت ہے۔

اسلامی تعلیمات سے کس قدر واقفیت خاطر خواہ کہلائے گی اور گناہِ کبیرہ میں کون کون سے اعمال شامل کیے گئے ہیں کیونکہ کبیرہ گناہوں کی فہرست مختلف  مکتبہ ہائے فکر میں مختلف ہیں اور کیا جھوٹ بولنا یا سچ چھپانا اور غلط بیانی کرنا بھی گناہِ کبیرہ میں شامل ہیں؟

آج کی تاریخ میں اگر اسلام کے تصورِ گناہ اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی صفت ’صادق اور امین‘ کا کلّی طور پر اطلاق کر لیا جائے تو یہ چھنی اس قدر باریک ہوجائے گی کہ شاید اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کسی ایک شخص کا بھی اس سے گزر پانا ممکن نہ رہے۔

آئین میں صرف لفظ ’اسلامی‘  کے استعمال سے آئین اسلامی نہیں ہوتا اور بنیادی طور پر تمام متفقّہ اعمال حَسنّہ و صالحات اسلامی ہیں، چاہے لفظ اسلامی شامل کیا جائے یا نہ کیا جائے اور آج دنیا کی ہر جمہوریت مجلس شوریٰ کا رکن منتخب ہونے کے لیے ہر انسان سے یہی بنیادی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ شخص اخلاقی طور پر کرپٹ نہ ہو اور اس کی آمدنی کے ذرائع قانونی طور پر جائز ہوں۔

گزشتہ الیکشن کے بعد ہی سے نواز شریف مخالف تحریکوں نے نہ صرف عوام کا وقت ضائع کیا بلکہ قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچایا۔ یوں تو آئین کی شق 62 کو ہی بنیاد بنا کر نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا اور الیکشن کمیشن کے کندھوں پر دوبارہ سے حلقہ NA-120  میں الیکشن کی ذمہ داری آگئی اور اس کے بعد مسلم لیگ نواز شریف کی جانب سے بیگم کلثوم نواز کا نام تجویز کیا گیا۔ پوری انتخابی مہم کے دوران اور الیکشن میں کامیابی سے لے کر آج تک بیگم کلثوم نوازسیاسی منظرنامہ سے غائب ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ الیکشن کمیشن سمیت کسی سیاست دان نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ کیا بیگم کلثوم نواز اس عہدے کی اہل ہیں ؟ کیونکہ ان کی صحت انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ یہ ذمہ داری اٹھا سکیں۔

اسلامی شریعت میں تمام عہدوں کے لیے جسمانی اہلیت بنیادی شرط ہے، یعنی کہ انتہائی ضعیف، انتہائی معذور اور کسی خطرناک  عارضے میں مبتلا شخص کسی بھی ذمہ دار عہدے کا اہل اس لیے نہیں ہوسکتا کہ وہ جسمانی طور پر ان عہدوں سے انصاف کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔

آئین کی شق ( الف63,1 )  کے مطابق کوئی شخص مجلس شوریٰ کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہیں ہوگا اگر وہ ’فاترالعقل ہو اور کسی مجاز عدالت کی طرف سے ایسا قرار دیا گیا ہو‘۔ تعجب ہے کہ آئین میں کہیں بھی  مجلس شوریٰ کا رکن منتخب ہونے کے لیے جسمانی اہلیت و صحت کی وضاحت نہ کر کے اس باریک چھلنی میں اتنا بڑا سوراخ کر دیا گیا ہے کہ بیگم کلثوم نواز آسانی سے اس میں داخل ہو گئیں اور ایک بار پھر الیکشن کے نام پر دوبارہ سے عوام کے وقت اور قومی خزانے کو ضائع کیا گیا۔ حالانکہ اسلامی مفکرین میں امام غزالی سے لے کر ابن خلدون تک سب اس بات پر متفق ہیں کہ حکم ران کا بہادر اور نڈر ہونا ضروری ہے، مزید برآں حکم ران اچھی صحت کا مالک ہو،  اس کے حواس خمسہ سلامت ہوں اور وہ اس حد تک اپاہج نہ ہو کہ اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کر پائے، تاکہ وہ تمام خطرات کا مقابلہ کرسکے اور اپنے فرائض اچھی طرح سرانجام دے سکے۔

افسوس! ہمارے آئین میں موجود آدھی شریعت اور ادھورے قوانین کی وجہ سے بار بار عوام سے بھدّا مذاق کیا جاتا ہے۔ آئین کی شق 62 کو بنیاد بنا کر ملک کے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے اور دوسری طرف آئین کی شق 63  میں موجود سقم  کا فائدہ اٹھا کر عدلیہ، پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کے ناک کے عین نیچے ایک نا اہل شخصیت کو  مجلس شوریٰ کا رکن منتخب کرلیا جاتا ہے۔