آزادیء صحافت، سلیم شہزاد، پشتون اور ہزارہ

عاطف توقیر

سلیم شہزاد کا جرم واضح تھا۔ ریاست کی عسکری اشرافیہ نے ایک سرخ لکیر بنا رکھی ہے اور وہ لکیر شہری آزادی، آزادی اظہار رائے یا آزادی صحافت کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ عوام کو مسلسل جھوٹ بتانے اور سچائی چھپانے سے عبارت ہے۔ سلیم شہزاد ایک عمدہ صحافی تھے۔ گو کہ سلیم شہزاد وہ واحد صحافی نہیں ہیں، جو ریاست کی اس سرخ لکیر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے، تاہم اس ایک صحافی کی زندگی، کام اور موت کو دیکھتے اور پاکستان میں صحافیوں کے لاحق خطرات اور پھر پشتونوں، سندھیوں، ہزارہ اور دیگر احباب کی شکایات پر نگاہ کرتے ہیں۔

سن 1992 سے لے کر اب تک پاکستان میں ایک ہزار سے زائد صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان چیدہ ممالک میں سے ایک ہے، جہاں بہ ظاہر کوئی خانہ جنگی بھی نہیں مگر صحافیوں کی زندگی کے اعتبار سے انہیں خطرناک ترین ممالک قرار دیا جاتا ہے۔

پشتونوں اور ہزارہ برادری کی جانب سے حالیہ کچھ دنوں میں متعدد مرتبہ یہ شکوہ سامنے آیا ہے کہ میڈیا اور صحافی نے کے احتجاج کو کور نہیں کرتے بلکہ میڈیا بلیک آؤٹ کیا جاتا ہے۔ عملی طور پر یہ بات درست ہے مگر اس کی پرتوں کو دھیرے دھیرے کھولا جائے، تو اندر ایک نہایت زہریلہ معاملہ ہے۔

اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے چند ہی روز بعد سن 2011 کے اسی مہینے میں سلیم شہزاد اغوا ہوئے اور اگلے روز ان کی لاش ملی۔ لاش پر تشدد کے نشانات واضح تھے اور اس حوالے سے تب جسٹس ثاقب نثار ( جو اب چیف جسٹس آف پاکستان ہیں) کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا۔

اغوا سے قبل ایک بین الاقوامی آن لائن اخبار میں سلیم شہزاد نے بتایا تھا کہ کراچی میں مہران بیس پر حملے سے قبل پاکستانی نیوی اور القاعدہ کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے، جن میں القاعدہ نے اپنے زیرحراست رہنماؤں کو چھوڑنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ مذاکرات ناکام ہونے کے فوراﹰ بعد مہران میں پاکستانی بحریہ کے اہم ترین اڈے کو نشانہ بنایا گیا۔ اس رپورٹ میں سلیم شہزاد نے ملکی عسکری اداروں اور القاعدہ کے درمیان روابط کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ

اس سے قبل سلیم شہزاد کو آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز بلایا گیا تھا۔ اس طلبی کے بعد سلیم شہزاد نے ہیومن رائٹس واچ کو اس بابت لکھا اور بتایا کہ کس طرح انہیں دھمکایا گیا ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ کس بابت انہیں رپورٹ نہیں کرنی۔ اس خط میں سلیم شہزاد نے لکھا کہ ان کی زندگی کو ملک کے خفیہ ادارے سے خطرہ ہے۔

اپنی گم شدگی سے صرف نو ماہ قبل سلیم شہزاد نے امریکی صحافی ڈیکسٹر فِلکِنز کو لکھا، ’’دیکھو میری زندگی خطرے میں ہے۔ مجھے اب فوراﹰ پاکستان چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘

29 مئی کو سلیم شہزاد ایک ٹی وی چینل میں انٹرویو کے لیے شام کو نکلے تو اغوا ہو گئے۔ اس کے بعد اگلے روز ان کی تشدد زدہ لاش منڈی بہاؤ دین کے قریب سے ملی۔

اس قتل کے بعد شدید عوامی اور صحافتی ردعمل پر تب کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جسٹس (اب چیف جسٹس آف پاکستان) ثاقب نثار کی سربراہی میں ایک عدالتی کمشین بنایا، جس نے اپنی رپورٹ میں اس قبل میں ملوث افراد کے بارے میں کوئی بات کرنے کی بجائے، تمام معاملہ گول مول کر دیا۔ اس تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس قتل میں کوئی بھی ملوث ہو سکتا ہے۔ جب کہ تحقیقاتی رپورٹ میں الٹا صحافیوں سے کہا گیا کہ وہ کس بات پر رپورٹ کریں اور کس بات پر رپورٹ کرنے سے گریز کریں۔ قتل کی اس تحقیقاتی رپورٹ کو پڑھیں، تو لگتا ہے کسی نے قتل کی تفتیش اور قاتل کی نشان دہی کی بجائے دیگر صحافیوں کو بتایا کہ ’صحافتی اخلاقیات‘ کیا ہوتی ہیں اور انہیں متعین کون کرتا ہے۔

اس قتل کے بارے میں امریکی فوجی سربراہ نے کانگریس میں کہا کہ سلیم شہزاد کے قتل میں پاکستانی کے ریاستی عناصر ملوث ہیں۔ دوسری جانب ہیومن رائٹس واچ بلکہ پاکستان کی صحافتی یونینز نے بھی اس کمیشن رپورٹ کو مسترد کر دیا، نہ کوئی قاتل پکڑا گیا، نہ کوئی ثبوت ملا، نہ کوئی ملزم ملا، نہ کوئی نشان ملا، نہ کوئی کٹہرے میں آیا اور نہ ہی کوئی انصاف ہوا۔ اس طرح یہ قتل بھی رائیگاں گیا۔

مگر اس قتل کے ذریعے دیگر صحافیوں کو ایک واضح پیغام دے دیا گیا کہ یہ معاشرہ قلم کا نہیں بندوق کا ہے اور ریاستی اداروں کا کام ہماری آزادی اور حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ اپنے کارناموں کا دفاع ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ اور ہزارہ برادری سمیت ملک کے مختلف افراد، برادریوں اور قومیتیوں کو شکایت ہے کہ صحافتی ادارے اور میڈیا ان کی احتجاج اور مظاہروں کی کوریج نہیں کرتا۔ مگر سچائی یہ ہے کہ کسی صحافی کے لیے یہ آسان کام بھی نہیں ہے۔

ایک طرف میڈیا کی اپنی تجارتی مجبوریاں ہیں۔ مالکان جو اربوں روپے لگا کی ٹی وی چینلز قائم کرتے ہیں، ان کا کام عوام کو سچی اطلاعات فراہم کرنا نہیں پیسے کمانا ہوتا ہے، دوسری طرف صحافی انسان ہیں، ان کی اپنی کمزوریاں بھی ہیں، زندگی عزیز بھی اور بیوی بچے بھی۔ آپ کسی روز اپنے آپ کو کسی صحافی کی جگہ پر رکھ کر دیکھیے، خود ہی سوچیے کہ آپ سچ لکھنا چاہتے ہیں اور ایسے میں آپ کو کسی ایسے ادارے سے کوئی دھمکی ملتی ہے، جو قانون ہی سے ماورا ہے، جسے انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکتا، جسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، جو کسی مالک یا چوہدری کی طرح ملک کے ججوں کو جو پرچی پر لکھ دیتا ہے، وہ جج ویسا ہی پڑھ دیتے ہیں، جو ملک کے وزیراعظم تک کو گھاس ڈالنے کو تیار نہیں۔ وہ آپ کو مار ڈالے، لاپتا کر دے، تشدد کرے،

ھمکیاں دے یا مالکان سے کہہ کر نوکری خطرے میں ڈلوا دے، تو زندگی سب کو عزیز ہوتی ہے اور روزی روٹی بھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اب سوشل میڈیا موجود ہے اور آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل کیمرہ بھی ہے اور مائیک بھی۔ اب کسی میڈیا ادارے پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنے حقوق کے لیے آواز خود بلند کیجیے اور حقوق کے لیے اٹھنے والی دوسری آوازوں کو اور زیادہ پھیلائیے۔ ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اس ملک میں طاقت کا قانون نہیں بلکہ قانون کی طاقت ہو۔