آزمائش شرط ہے!
وقاص احمد
سیاسی/جمہوری تحفظات ایک طرف مگر ہمیں کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا کہ فوج کا نظام احتساب زبردست اور فعال ہے۔ بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اپنے لوگوں کو اتنا دو کہ کہیں اور منہ نہ ماریں۔ ایک مختصر سا خاکہ جو اس احتسابی نظام کو دیکھ کر ہمارے اذہان میں بنتا ہے اور ارباب اقتدار و اختیار سے گزارش بھی ہے کہ فی الفور یہی نظام پاکستان کے ہر محکمے میں رائج کر دیا جائے۔ ہر محکمے میں نوکری کے آغاز پر ہی چند سو یا چند ہزار روپے کی ٹوکن کٹوتی پر ملازمت کے آخر میں ایک بہترین پلاٹ کی گارنٹی دی جائے۔ مذید براں کمرشل پراپرٹی، زرعی زمینیں اور محکمے کی اپنی لانچ کردہ عالیشان رہائشی سوسائیٹیز میں آسان اقساط اور ارزاں نرخوں پر پلاٹ دئیے جائیں۔ کنالوں پر بنے گھر مارکیٹ سے چوتھائی قیمت اور چند ہزار روپے ماہانہ کی اقساط پر فراہم کیئے جائیں۔ کمرشل پلاٹس اندھوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹے جائیں، 99 کے بجائے 199 سال کی لیز پر پانچ سات سو روپے سالانہ کرایہ پر نہری و بارانی زرعی زمینیں بانٹی جائیں۔ تمام محکمہ جات کے سربراہان اور ٹاپ آفیسرز کے لیئے مذید خصوصی رعایتیں ہوں۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے آخری گھگھی (دستخط) مارنے پر اسے آرمی چیف کی طرح “گڈ ول سگنیچر” والا پلاٹ بھی دیا جائے۔ ہر شہر میں کوئی بھی محکمہ جہاں چاہے زمین پر قبضہ کرکے اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی بنائے اور پھر اس کے کوڑیوں برابر دام حکومت پاکستان کو ادا کرکے اسے قانونی کرنے کا اہتمام بھی موجود ہو۔ ریٹائر ہونے پر شاندار نوکریوں کے انتظامات ہوں۔ تمام محکمے اپنے نجی بزنس بھی چلائیں، شوگر ملیں، ادویات، چائے بسکٹ، دودھ دہی، سیمنٹ کھاد کے کارخانے، بینک سبسڈی اور ٹیکس چھوٹ لے کر بنائیں۔ اس سے ملک میں روزگار کو بھی فروغ ملے گا۔
سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ تمام محکمہ جات اپنا احتساب خود کریں، اپنے مالی آڈٹ بھی خود کریں، کسی دوسرے کو ان کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہ ہو۔ آخر یہ سب ہمارے بھائی ہیں، چور تھوڑی ہیں، ہمیں ان سب کا بھی اعتبار کرنا ہوگا۔ کسی بھی محکمے کی توہین کرنے پر آئین کے وہ وہ آرٹیکلز لرز جائیں جن کا نام بھی ہم آپ نے ناں سنا ہو۔ مزید قانونی تفصیلات ہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے لیئے چھوڑ دیتے ہیں جو ہر محکمے کے افراد کو یکساں طور پر وہی “انصاف” مہیا کریں جو افواج پاکستان کو حاصل ہے۔ چوں چراں کرنے پر کسی جج کو اٹھوانے، پھڑکانے یا لٹکانے کا آئینی انتظام بمعہ ویڈیو ثبوت بھی موجود ہو۔ محکمانہ کرپشن ہر محکمے کا اندرونی معاملہ ٹھہرے، اسکا حکومت پاکستان سے کچھ لین دین نہ ہو۔ محکمانہ کرپشن کو مکمل خفیہ رکھا جائے۔ کسی کو ہوا بھی نہیں لگنی چاہیے کہ اندرون خانہ کیا کھانچے چل رہے ہیں۔ کوئی شخص کسی بھی محکمے کے خلاف آواز اٹھائے تو بلا تفریق اس کو سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کے لیئے اٹھا لیا جائے۔ ہاں اگر کوئی محکمہ کبھی کبھار خود چاہے کہ اپنے چند ایک افسران کی مکمل پنشن، مراعات میڈیکل اور دیگر سہولیات کے ساتھ باعزت ریٹائرمنٹ کو “کرپشن کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی” کا نام دے کر پرچار کرنا چاہے تو اس محکمہ کو پرائم میڈیا پر مساوی ائیر ٹائم دیا جائے تاکہ کمپنی کی مشہوری منصفانہ بنیادوں پر ہو۔ کسی بھی سرکاری افسر کے خلاف ٹویٹر پر ھیش ٹیگ “فلاں فلاں منی ٹریل دو” کے ٹرینڈ بنانا قومی جرم ٹھہرے۔ خیال رہے کہ اس معاملے میں رازداری سب سے اہم ہے۔ جب کرپشن رپورٹ ہی نہیں ہوگی تو کرپشن فری پاکستان کا تاثر پوری دنیا میں جائے گا جو پاکستان کی نیک نامی کا سبب بنے گا۔ ذرا تصور میں لائیے کہ اگر ہم ہر محکمے کو ویسا ہی شفاف، ایماندار، ڈسپلنڈ اور کھرا سمجھیں گے جیسے فوج کو سمجھتے ہیں تو لامحالہ تمام ادارے مضبوط ہوں گے۔ ادارے مضبوط ہوں گے تو ہی ملک مضبوط ہوگا۔ سو کرپشن کا حل یہی ہے کہ اسے رپورٹ نا ہونے دیا جائے، آخر کرونا کو بھی ہم نے نان رپورٹنگ کے ذریعے ہی کامیابی سے کنٹرول کیا ہے ناں؟
نوٹ:- تجویز سنجیدہ ہے اور صاحب مضمون اس کی کامیابی پر کامل یقین رکھتا ہے۔ آزمائش شرط ہے.