آسیہ بی بی، باعزت رہائی مگر بہ حفاظت رہائی نہیں

غیور شاہ ترمذی

توہین مذہب کے مبینہ الزام سے 9 سال بعد رہائی پانے والی آسیہ نورین عرف آسیہ بی بی اپنی رہائی کے فوراﹰ بعد اپنے شوہر عاشق مسیح اور بیٹی ایشام عاشق کے ساتھ لندن کے لیے روانہ ہو جائے گی ۔

برطانیہ کی ایک این جی او “ایڈ ٹو دی چرچ ان نِیڈ” (Aid To The Church in Need) نے آسیہ بی بی کے خاندان کی انگلینڈ میں رہائش اور اس کے کیس کی پیروی کے لیے وسائل کا بندوبست کیا ہے۔ آسیہ بی بی کے اپنے بھٹہ مزدور شوہر عاشق مسیح سے دو بچے ہیں جبکہ عاشق مسیح کے پہلی مرحومہ بیوی کے 3 بچے بھی اسی کے ہم راہ رہتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں عاشق مسیح، ایشام عاشق اور آسیہ نورین ہی ہیں جو جیل سے نکلتے ہی سیدھا ائیر پورٹ جائیں گے جہاں سے وہ لندن ہیتھرو ائیر پورٹ کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔

جون 2009ء میں شیخوپورہ کے نواحی گاؤں اٹاں والی (Ittan Wali) میں فالسے کے کھیتوں میں کام کے دوران آسیہ بی بی کا ساتھی مسلمان عورتوں کے ایک گروپ کے ساتھ ان کے برتن میں پانی پینے پر جھگڑا ہوا تھا جس کے دوران آپسی گالم گلوچ میں آسیہ نورین پر توہین رسالت کا الزام لگا دیا گیا ۔ اس واقعہ کے 4/5 دن بعد گاؤں میں ہونے والے ایک اجتماع میں ایک 5 مرلہ گھر میں موجود ’’ہزاروں افراد‘‘ کے سامنے مبینہ طور پر آسیہ بی بی نے جرم کا اعتراف کر لیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس 5 مرلہ کے گھر میں ہزاروں لوگ سما جانے کی سائنس آج تک لاینحل ہی ہے۔

اس واقعہ کے بعد آسیہ بی بی پولیس کی حراست میں رہی اور نومبر 2010ء میں عدالت سے سزائے موت سنائے جانے کے بعد سے اس کا خاندان مختلف مقامات پر چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوا۔ آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح کا کہنا تھا کہ “جب سے یہ حادثہ ہوا ہے ہمیں بار بار گھر بدلنا پڑا ۔ بچے چھوٹے چھوٹے تھے ۔ میں نے انہیں ماں کی طرح پالا ہے لیکن جو ماں ہوتی ہے وہ ماں ہوتی ہے ۔ اس واقعے کے بعد ایشام اور دوسرے بچے سکول جاتے تھے تو وہاں بھی بچے انہیں دھمکیاں دیتے تھے، جبکہ بعض اوقات ان کے ساتھ مار پیٹ بھی ہوئی ۔ لہذا مذہبی انتہا پسندوں کی دھمکیوں اور ان کے سروں کی لاکھوں روپے قیمت لگائے جانے کے بعد جان بچانے کے لئے بیرون ملک منتقل ہونے کا فیصلہ کرنا پڑا”۔

عاشق مسیح کا کہنا تھا کہ “پاکستان ہمارا دیس ہے، وہیں ہم پیدا ہوئے, بڑے ہوئے لیکن اگر عوام ہمیں یہاں نہ رہنے دے پھر تو باہر ہی نکلنا پڑے گا”۔

واضح رہے کہ آسیہ نورین بی بی کے کیس کی پیروی کرنے کے جرم میں وفاقی وزیر مملکت شہباز بھٹی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں جبکہ کچھ تنظیموں نے اعلان کر رکھا ہے کہ جو جج بھی آسیہ بی بی کو رہا کرے گا اسے نہیں چھوڑا جائے گا ۔ ان سنگین حالات میں آسیہ بی بی کے گھر والوں کے انگلینڈ منتقلی کے فیصلہ کو ماہرین وقت کی اہم ضرورت قرار دے رہے ہیں۔