آپ پاکستان سے نفرت کرتے ہیں؟
عاطف توقیر
مجھے اپنے وی لاگز، مضامین اور لائیو بیٹھکوں میں ایک معاملہ ہمیشہ سوچنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں، جو کھلے دل کے ساتھ بات سنتے ہیں، کسی بات سے اختلاف ہو، تو اس کا نہایت علمی اور مدلل انداز سے اظہار کرتے ہیں، سوال پوچھتے ہیں اور بات سمجھتے یا سمجھاتے ہیں اور دوسری جانب وہ احباب جنہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ بات کیا ہو رہی ہے یا انسانوں کے درمیان اختلاف رائے ایک عمومی چیز ہے یا کسی بات کا دلیل کے ذریعے کس طرح رد پیش کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ایک طرف وہ احباب ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں اور دوسری طرف وہ جو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ عاطف صاحب آپ پاکستان سے نفرت کیوں کرتے ہیں یا آپ ہمیشہ ہر شے پر تنقید کیوں کرتے ہیں یا کیا پاکستان میں آپ کو کوئی اچھی چیز دکھائی نہیں دیتی؟
ابھی متبادل کی ایک نہایت عمدہ مصنفہ سے گفت گو ہو رہی تھی اور محبت اور نفرت کے مختلف زاویوں پر بات ہو رہی تھی، تو مجھے خیال آیا کہ اس موضوع پر لکھنا نہایت ضروری ہے۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ میری نگاہ میں زمینوں پر لکیروں یا سرحدوں کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں۔ میں بہ حیثیت انسان اس پورے کرے کو اپنا گھر مانتا ہوں اور اس پر بسنے والی تمام مخلوقات یعنی فقط انسان ہی نہیں دیگر نباتات و حیوانات بلکہ پورے ایکوسسٹم کو اپنا گردانتا ہوں۔ میری نظر میں ہم جنہیں جغرافیاتی لکیریں کہتے ہیں، وہ ہرگز جغرافیاتی نہیں بلکہ فقط سیاسی، نظری یا تصوراتی ہیں۔ اصل جغرافیاتی لکیریں وہی ہیں، جو زمین نے خود کھیچنی ہیں، یعنی براعظم امریکا براعظم یورپ سے جدا ہے اور آسٹریلیا اور یورپ کے درمیان جغرافیائی فرق ہے۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال افریقہ اور ایشیا ہیں۔ براعظم افریقہ فطری طور پر سینائی کے خطے کے ذریعے براعظم ایشیا کا حصہ تھا، تاہم ہم نے نہرسوئز کے ذریعے ان دونوں براعظموں کو الگ الگ کر دیا اور یوں بحیرہء روم اور بحیرہء احمر کو آپس میں ملا دیا گیا یا جیسے نہر پاناما کے ذریعے بحرالکال اور بحر اوقیانوس کو آپس میں جوڑ دیا گیا۔ یعنی یہ لکیریں انسان کی اپنی کھینچی ہوئی ہیں اور انہیں ’جغرافیائی حدبندی‘ سیاسی طور پر تو تسلیم کیا جا سکتا ہے، مگر حقیقی جغرافیائی نہیں مانا جا سکتا۔
ایک بات اور یاد رکھیے، انسانی معاشرت میں بہت سی چیزیں حقیقی وجود نہیں رکھتیں بالکل فقط تصوراتی ہوتی ہیں، تاہم ہم انہیں حقیقی سمجھنے لگتے ہیں۔ انسانی تہذیب کی بنیاد حقائق پر نہیں بالکل قصے کہانیوں اور تصورات ہی سے پیوستہ ہے اور ایسے ہی قصے کہانیوں کی مثالیں قومی سلامتی، قومی سرحد یا ملک کہلاتی ہیں۔ یہ تصوراتی کہانیاں بہت سے انسانوں کو آپس میں جڑ کر ایک کاز کے لیے کام کرنا سکھاتی ہیں، جیسے امریکا کی شمالی ریاست نارٹھ ڈیکوٹا اور جنوبی ریاست ایروزونا کے دو افراد جن کا حقیقت میں آپس میں کوئی لینا دینا نہیں، وہ ’امریکا کی سلامتی‘ کے نام پر فوج میں بھرتی ہو کر مل کر کام کرتے ہیں حتیٰ کہ اپنی جان تک دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ بھارت کے مختلف خطوں میں بسنے والے افراد خود کو بھارتی سمجھتے ہیں یا ایران کے مختلف علاقوں کے افراد کو یہ احتمال ہوتا ہے کہ ان کی پہچان ایران ہے۔
یہ قصے کہانیاں ہی تھے، جو انسانی ارتقا میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے اور اس طرح انسانوں کے گروہ اور قبائل بنائے اور ایک خاص طرز کا نظم قائم رکھا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان مفروضات پر بہت کڑے سوالات کیے جا سکتے ہیں۔ وہ عالمی اقتصادیات ہو، پیسہ ہو، قومی سلامتی ہو، ملکی سالمیت ہو یا دیگر قصے، ان سب غیرحقیقی معاملات کو ہم حقیقت سمجھتے ضرور ہیں، مگر ذرا سا ٹٹولا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں۔ مثال کے طور پر آپ کام کرتے ہیں اور آپ کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک نوٹ یہ کہہ کر تھما دیا جاتا ہے کہ یہ آپ کی اجرت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ تمام دن یا ماہ کام کے بدلے کاغذ کے اس نوٹ کی حقیقت کیا ہے؟ تاہم چوں کہ تمام معاشرہ اس قصے پر یقین رکھتا ہے، اسی لیے آپ کسی دکان دار کو یہ نوٹ تھماتے ہیں، تو وہ اس کاغذ کے ٹکڑے کو واقعی میں کوئی ’قیمتی شے‘ سمجھ کر آپ کو اس کے بدلے آپ کو آپ کی مطلوبہ شے تھما دیتا ہے اور اب تو معاملہ یہ ہے کہ یہ کاغذ تک نہیں تھمایا جاتا بلکہ آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ کے کام کے بدلے آپ کے بینک اکاؤنٹ میں چند ہندسے داخل کر دیے گئے ہیں۔
اب سوال یہ کہ کیا میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں یا نفرت؟ تو بات یہ ہے کہ میں صرف اس پاکستان سے محبت کرتا ہوں، جو ایک ایسی سرزمین پر قائم ہے، جس کی صدیوں کی تاریخ ہے۔ میں صرف اس پاکستان سے محبت کرتا ہوں، جہاں اظہار رائے کی آزادی ہو تو اظہار رائے کرنے والے غائب نہ ہوں۔ میں صرف اس پاکستان سے محبت کرتا ہوں، جہاں دستور کے نیچے تمام قومیتوں کو برابری کے حقوق دستیاب ہوں، جیسا اس ملک کے قیام کے وقت ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ میں صرف اس پاکستان سے محبت کرتا ہوں، جہاں فیڈریشن میں شامل تمام اکائیوں کو قراردادِ لاہور کی روح کے مطابق زیادہ سے زیادہ خودمختاری اور اپنے وسائل پر اختیار حاصل ہو۔ میں صرف اس پاکستان سے محبت کرتا ہوں، جہاں انسانی تہذیب سے وابستہ قدیم زبانوں اور ثقافتوں کا مکمل تحفظ ہو اور قومتیوں کے درمیان جوڑ کی بنیاد انسانی وقار پر قائم ہو۔ میں صرف اس پاکستان سے محبت کرتا ہوں، جہاں تمام انسان امن اور بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت زندگی گزار سکیں اور ان کا مستقبل محفوظ ہو۔
اس کے علاوہ پاکستان کی کوئی بھی تصوراتی تعریف یا جذباتی نعرہ میری نگاہ میں کسی بھی صورت کوئی اہمیت رکھتا ہے نہ جواز۔ میں پاکستان سے مراد زمین کا ٹکڑا لینے کی بجائے اس پر بسنے والے انسانوں کو لیتا ہوں اور میری نگاہ میں پاکستان کی مضبوطی کا مطلب ان انسانوں کی خوش حالی اور مضبوطی سے وابستہ ہے۔
پاکستان ایک گھر ہے، جس میں مختلف کمرے ہیں اور مختلف افراد بس رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ گھر کی بیرونی دیواریں (جو صرف تصوراتی ہیں) ہم مضبوط کرتے جائیں یا مضبوطی کا نعرہ لگاتے جائیں، جب کے گھر کے اندر بسنے والے انسان زندگی، عزت، وقار، انصاف، خوراک، تعلیم، صحت اور بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم رہیں اور یہ محرومیاں ایک کمرے کے افراد کی دوسرے کمرے کے افراد سے نفرتوں کی وجہ بننے لگیں؟
اس لیے ایسے افراد جنہیں لگتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورت حال پر تنقید پاکستان سے نفرت ہے، وہ یہ سمجھ لیں کہ یہ پاکستان ہرگز وہ پاکستان نہیں ہے، جس کا وعدہ کر کے ہندوستان کی سرزمین پر ایک نئی تصوراتی لکیر کھینچی گئی تھی۔ اس خطے پر بسنے والے لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اپنی دھرتی پر فیصلوں اور اپنے وسائل کے استعمال پر اختیار خود انہیں ہو گا۔ اس خطے پر بسنے والے لاکھوں انسانوں سے وعدہ خلافی کرنے والوں، ان کی ثقافتیں تباہ کرنے والوں، ان کی زبانیں برباد کرنے والوں، ان کے مستقبل تاریک کرنے والوں اور ان کے زندگیوں کو گورے سرکار سے بھی زیادہ تباہ حال بنانے والوں سے نفرت ایک نہایت انسانی معاملہ ہے۔ سو عدم اتفاق اور بھرپور اختلاف ان حکمتِ عملیوں اور پالیسوں سے پوری قوت سے ہوتا رہے گا، جو نہ صرف ہم سے وعدہ خلافی کا مرتکب ہوئیں بلکہ انہوں نے دنیا کے اس انتہائی تہذیب یافتہ اور تاریخی خطے کو فقط اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے بے تکریم کر کے رکھ دیا۔ انسانوں کی عزت اور تکریم ہی نہ ہوئی، تو پاکستان ایک ’قصے کہانی‘ یا کسی جذباتی نعرے سے زیادہ کیا باقی بچے گا؟