آپ کی شکل ’قادیانیوں‘ جیسی ہے

عاطف توقیر

نفرت انگیزی یقیناﹰ ایک مذہب ہے اور اس کے اربوں پیروکار یہ جانے بغیر کہ وہ اس کے پجاری ہیں، نفرت کے خدا کو پوجے جا رہے ہیں۔ ایسے بہت سے نفرت انگیزوں کی جانب سے کسی نہ کسی طرز کا پیغام بلکہ پیغامات موصول ہوتے رہتے ہیں، تاہم گزشتہ روز اس عجیب سے پیغام نے مجھے چونکا دیا۔

علم کے قبیل کے لوگوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ چیزوں کو نہایت باریکی سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اپنے سامنے کچھ ہوتا دیکھتے ہیں، تو اس پر اپنی ناقدانہ رائے دیتے ہیں اور ان کا بنیادی مسئلہ افراد کی بجائے اقدامات ہوتے ہیں۔ علم کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ جب جب کسی جسم میں اترتا ہے، وہاں یقین اور غصے کا قتل کر کے شک انکساری اور برداشت کے نئے بیج بوتا چلا جاتا ہے اور آپ سوال کی کائناتوں کے مسافر بن جاتے ہیں۔ تاہم برداشت اور حوصلہ وہ بنیادی عناصر ہیں، جو علم اور جہالت کے درمیان ایک حتمی لکیر کھینچ دیتے ہیں۔

گزشتہ روز ایک دوست کی جانب سے، جس کا تعلق غالباﹰ نفرت کے قبیل ہی سے ہو گا، کسی رواروی میں ایک پیغام ارسال کر گیا کہ عاطف بھائی آپ کی شکل ’قادیانیوں‘ کی طرح ہے۔ اس پیغام کو سرسری انداز سے دیکھا جائے، تو لغو یا بے ہودہ کہہ کر صرف نظر کیا جا سکتا تھا۔ مگر اس سوال نے مجھے ایک گہری سوچ میں غرق کر دیا۔
بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’قادیانیوں‘ جیسی شکل کیا ہوتی ہے؟ ابھی اسی سوچ میں تھا، تو میرے اندر ہی سوال پیدا ہوا کہ میں کون ہوں اور کیوں ہوں؟

میں ایک سنی بریلوی گھرانے میں پیدا ہوا، تو بچپن سے قوالیاں اور نعتیں سنتے گزری، کچھ بڑے ہوئے تو گھر کے لوگوں نے دیکھا بچہ شاعری کی طرف متوجہ ہے، سو ان کی داد اور حوصلہ افزائی نعتوں کے شعر کہلواتی چلی گئی۔ دھیرے دھیرے یہی کچھ میرے اندر اترتا چلا گیا مجھے محسوس ہوا کہ وہ نظریہ جسے میں دل و جان سے پسند کرتا ہوں اور درست مانتا ہوں، وہی اصل میں قطعی طور پر درست ہے۔

سو بریلوی گھرانے میں پیدا ہوا، تو بڑے فخر سے خود کو سنی کہلوانے لگا۔ سوال لیکن یہ ہے کہ اگر میں کسی شیعہ گھرانے میں پیدا ہوتا تو کیا ہوتا؟ اس سوال سے جیسے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوئے۔ کیوں کہ جواب نہایت عجیب تھا۔ جواب تھا کہ میں اس وقت پوری تمکنت کے ساتھ شیعہ ہوتا اور کربلا کا ذکر سنتے ہیں میرے ہاتھ میرا سینہ پیٹنے پر مجبور کر دیتے۔

لیکن سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر میں کسی ہندو کے گھر میں پیدا ہوتا تو؟ جواب یہ ہے کہ میں اس وقت پوری رعنائی سے کسی بھگوان، کسی دیوتا کا پجاری ہوتا اور اسی حق اور سچ مانتا ملتا۔ اگر میں مسیحی گھرانے میں پیدا ہوتا تو اس میں یسوع مسیع کے گیت گاتے ہوئے اسے خدا کا بیٹا تصور کرتا اور اسی کو اپنی نجات کا واحد راستہ سمجھ رہا ہوتا۔

اگر یہودی گھرانے کا چشم و چراغ ہوتا، تو مجھے اپنے مذہب کے علاوہ سبھی مذاہب یک سر غلط معلوم ہو رہے ہوتے۔ اسی طرح میں نے کسی احمدی گھرانے میں آنکھ کھولی ہوتی، تو اس وقت میرا مطمعِ نظر اس کے علاوہ کیا ہوتا جو احمدیوں کے پیش نظر ہے؟

کم از کم میں اپنے لحاظ سے یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں، کہ تمام تر سفر، تمام تر مطالعے اور تمام تر مشاہدات کے باوجود میں جب جب کسی مزار پر پہنچتا ہوں، میری نگاہیں جھک جاتی ہیں، ننگے پاؤں اس مزار کے احاطے میں ٹہلتے ہوئے پلکیں بچھی رہتی ہیں۔ قبر سے ماتھا ٹکانے پر روح تک میں سکون پھوٹتا محسوس ہوتا ہے۔ قوالی کی لے یا نعت کے مصرعوں پر بے اختیار جس تھرکنے لگتا ہے۔

گزشتہ روز کی بات ہے والدہ نے مدینہ منورہ سے پیغام بھیجا کہ میں یہاں روضہء رسول کے قریب ہوں، اپنے اشعار بھیجو کہ مولائے کائنات کو سنا سکوں۔ یہ جملہ پڑھ کر ہی جیسے ایک خوف، مسرت، عقیدت اور سکون کی عجیب سی لہر جیسے ریڑھ کی ہڈی میں کوند گئی اور بے اختیار مدحتِ رحمتِ دوجہاں کے لیے برسوں پرانے اشعار انگلیوں سے اگ اگ کر موبائل کی اسکرین پر آنے لگے۔ کچھ دیر بعد جب والدہ کا یہ پیغام آیا کہ تمہارے اشعار مولائے کائنات کو سنا دیے ہیں، تو میں ذہن میں جو پہلا جملہ آیا، وہ یہ تھا کہ اماں اس سفر میں آپ کے عمرہ کر لیا مگر میرا حج ہو گیا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے اپنے چہروں پر اپنے اپنے مذاہب کھدوا کر اپنی پہچان کروایا کریں؟ خدا کہتا ہے کہ دکھاوے کی نماز پڑھنے والوں کے لیے جہنم کی سب سے نچلی گھاٹی مخصوص کی جا چکی ہے۔ ریاکاری کرنے والے کے بارے میں ہمیں یہ پیغام سنایا گیا ہے کہ روز حشر نمازیں ایسے افراد کے منہ پر ماری جائیں گی۔ تو پھر یہاں یہ کس طرز کے لوگ ہیں، جو لوگوں سے ان کے ایمان کی اسناد بھی طلب کرتے ہیں؟

لوگوں کے چہرے خدا کے بنائے ہوئے ہیں۔ اگر میں افریقہ میں پیدا ہوتا تو میری جلد کا رنگ سیاہ ہوتا۔ اگر میں مشرق بعید کے کسی ملک میں جنا جاتا، تو میری آنکھیں چندھائی ہوئی ہوتیں۔ یورپ کے کسی ملک کی زمین پر اگتا، تو میری جلد سفید ہوتی۔ مگر جلد کے ان تمام رنگوں کے باوجود، تمام تر مختلف مذاہب یا عقیدوں کے باوجود، تمام تر متفرق ثقافت کے باوجود، میں انسان ہوتا۔
دادی سے ایک بار بات ہوئی تو کہا کہ مجھے کس بات پر فخر کرنا چاہیے اور کس بات پر فخر نہیں کرنا چاہیے؟ کہنے لگیں، ہر وہ شے جو فطرت تمہیں دے کر بھیجے، اس پر نہ کبھی فخر کرو نہ کسی کو طعنہ دو۔ فخر فقط تب کرنا جب کوئی شے تم محنت کر کے حاصل کرو۔

میری جلد کا رنگ کیا ہے؟ میری ناک اور آنکھیں کس بناوٹ کی ہیں؟ میرا قد کتنا ہے؟ میرا خاندان کیا ہے؟ میرا ملک کیسا ہے؟ میں کس عقیدے یا مسلک سے تعلق رکھتا ہوں؟ یہ تمام چیزیں وہ ہیں، جو مجھے ودیعت ہوئی۔ مجھے ان میں سے کسی پر فخر کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ مگر مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں اپنا بے پناہ وقت مطالعے میں صرف کیا۔ درجنوں ملکوں کا سفر کیا۔ ہزاروں انسانوں سے ملے، کئی ثقافتوں کا مشاہدہ کیا، اپنے اندر اٹھتے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے غور و فکر کی۔ کائنات کے مشکل سوالات کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے تگ و دو کی۔

ایک بات طے ہے کہ مجھے جس فطرت کے ساتھ بھیجا گیا ہے، اگر وہ مجھے دی گئی ہوتی، تو پھر میں چاہے ہندو ہوتا یا مسلمان، مسیحی ہوتا یا یہودی، احمدی ہوتا یا سنی یا شیعہ یا افریقہ کے کسی بے لباس قبیلے کا کوئی رکن، میں ہر حال میں سوال کرتا، سوچتا، مطالعہ کرتا اور کوشش کرتا کہ اپنے اس قبیلے یا مسلک یا مذہب کی دیواروں سے پرے کی دنیاؤں کو بھی دیکھوں اور انسانیت اور فطرت کے مختلف رنگوں کا لطف لوں اور اپنے فضول ہونے کو کوئی جواز دوں۔