اخلاقی جرات سے خالی سماج

علی اقبال سالک

ان کی شخصیت بڑی شاداب قسم کی ہے.وہ اکثر کم بولتے ہے اور کم ہی لوگوں سے دل کھول کر گفتگو کرتے ہے.کلام کے آغاز میں ہی وہ آدمی کو پہچان جاتے ہیں۔ کہ اس سے کون سی بات ہضم ہوتی ہے .کون سی بات ہضم نہیں ہوتی .اس دن ان کا مجھے بلوا آیا کہنے لگے .آو میں نے معاشرے کی بہت بڑی بیماری کو پکڑا ہے .اس پہ بات کرتے ہیں.میں اس کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا موصوف گھر سے ابھی ابھی باہر نکلے ہیں بڑے بیٹے نے پانی سے تواضع کیا اور کہنے لگا بھائی آپ کو کچھ دیر انتظار کرنا ہوگا ابو کا موبائل بھی میرے پاس ہے اس سے محلے کے امام مسجد نے بلوایا ہیں. وہاں چلے گیے ہیں.میں نے حامی بھر لی .اس کا چھوٹے بیٹا کلاس ون کا طالب علم ہے ۔اسے میں نے اپنے پاس بلایا۔

اس سے ابھی 1,2 کی گنتی شروع کر دی تھی .اس اثنا دروزہ کھولا .زور کا قہہ قہہہ لگاتے ہوئے نرم لہجے میں موصوف بولے جناب صحافت اتنی بھی آزاد نہیں اپ میرے اس شیر خوار بچے سے صحافتی راویہ میں سخت قسم کے سوالات کریں؟ .میں احترامن کھڑا ہوا ۔سلام عرض کیا۔اپنی نشت پر برجماں ہوئے .کچھ دیر نجی زندگی کے بارے میں ہمکلام رہے .اس کے بعد میں نے سوال پوچھا جناب آپ پر معاشرے کی بہت بڑی بیماری پکڑنے کا الزام ہے? .کیا کہیں گے ؟وہ مسکرانے لگے اور بولا ہاں سچ ہے. یہ الزام درست ہے میں نے جس بیماری کو پکڑا ہے۔ اس کا میں نے نام معاشرے میں اخلاقی جرات کا فقدان رکھا ہے۔

وہ پر اثرار آواز میں بولنے لگیں اخلاقی جرات کا مطلب ہے۔ جھجک کے بغیر اپنا مدعا کہہ دینے کی ہمت یا حوصلہ کو کہتے ہیں ،جس کی کمی کی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ میں لوگ صحیح کو صحیح غلط کو غلط کہنے کو تیار نہیں ہے .اخلاقی جرات کا فقدان ہی ہے ہم معاشرہ کے سامنے بہت کچھ غلط ہو رہا ہوتا ہے مگر اس سے روکنے اور بولنے پر کوئی تیار نہیں ہے ۔اس کم بخت بیماری نے اس قدر اپنی جڑوں کو مظبوط کیا ہے اب کوئی سچ بولے تو اس کے ساتھ دینے کی تو دور کی بات ہے اس کو مشکوک نظروں سے ہم دیکھتے ہے ۔کئی یہ کسی دشمن ملک ایجنسی کا ایجنٹ تو نہیں۔

میں ان کی گفتگو کو بڑے غور سے سن رہا تھا اس اثنا وہ رک گیا اور مجھے سوال کیا ۔کیا ایسا نہیں ہے میں نے حامی بھر لی اور جواب دیا جی حضور اس خطرناک بیماری کو آپ نے پکڑا ہے یہی بیماری ہے جس کی وجہ سے آج سماج میں لاقانونیت اقراپرواری کھلے عام بکتی ہے .سماج میں انا کی جنگ کا راج ہے دوسروں کو نیچے اور خود کو اوپر دیکھنے کے لئے سر عام الزامات کا رواج عام ہو چکا ہے ۔کیونکہ اخلاقی جرات ختم ہونے کے بعد خود کی غلطی کو کوئی ماننے کے لئے تیار نہیں اور دوسرے کے اچھے کاموں کی تعریف کرنا کا کسی کے پاس حوصلہ نہیں۔

اخلاقی جرات ہی ہے جوکہ آپ کو دوسرے کے اچھے کاموں پر تعریف اور برے کاموں پر مزمت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ہمارے سیاسی لوگ جس پارٹی سے ان کا تعلق ہے وہ اپنی پارٹی کے ہر کالہ کارتوت پر پردہ ڈالنے پر تیار رہتے ہے۔مخالف پارٹی اگر کوئی اچھا کام کریں تو تعریف کی اخلاقی جرات نہیں رکھتے ہیں .بڑے بڑے حکمران اپنی غلطیوں کو ماننے کو تیار نہیں ۔باقی تو باقی صحافی جیسے معاشرے کا آنکھ کان کہا جاتا ہے۔

ان میں بھی اخلاقی جرات مر چکی ہے ۔وہ ٹھیکیدار بھی بنتے ہیں اور حکومت کے ترجمان بھی بنتے ہیں اور صحافت کے چمپیئن بھی جس کا جواز یہ پیش کرتے ہیں پاکستان میں سب چلتا ہے اور سب سے دکھ کی بات یہ ہے ۔ہم بحیثیت انسان سب میں اخلاقی جرات نامی چیز ختم ہو گئی ہے ۔ہمارے سامنے ظلم ہوتا ہے مگر گواہی کیلئے ایک فرد تیار موجود نہیں ہوتا۔وہ میرے ان ٹوٹے پھوٹے جملوں کو غور سے سن رہے تھے ۔ میں انھیں جملوں کے ساتھ خاموشی اختیار کر لیا ۔وہ دکھ بھرے لہجے سے کہنے لگے جناب یہی ہماری بہت بڑی کم بختی ہے میں اور آپ اس معاشرہ کا حصہ ہے۔

یہ سماج اس وقت بدل سکتا ہے جب یہاں اخلاقی جرات کا راج ہو۔ یہ حکومتیں اس وقت ٹھیک ہو سکتی ہے جب ان میں اخلاقی جرات رکھنے والے حاکم آجائے ۔عام عوام کی حالت تب تبدیل ہو سکتی ہے ۔جب یہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے قابل لوگوں کو ووٹ دیں ۔نہیں تو یہ سماج اس طرح چلتا رہے گا جو ابھی چل رہا ہے کیونکہ سماج اخلاقی جرات سے خالی سماج ہے