ارباب اختیار کی غفلت کو عذاب الہی کیوں کہیں؟

 عابد حسین

پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے اور ملک میں قومی ایمرجنسی قرار دی گٸی ہے۔ سیاسی اور معاشی بحران کو چھوڑ کر سیلاب کی وجہ سے یہ بحران  بدترین انسانی المیے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اب تک کی اطلاعات، میڈیا رپورٹس، ذاتی معلومات اور سروے کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار تین افراد کی جان یہ آفت نگل چکی ہے۔ جس میں تین سو چالیس بچے بھی شامل ہیں۔ جبکہ کم و بیش سترہ سو کے لگ بھگ افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ مجموعی طور پر تیس لاکھ تک کے قریب افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ جس میں زیادہ تر بے گھر افراد کا تعلق بلوچستان اور سندھ سے ہے۔

اطلاعات کے مطابق اب تک بلوچستان میں دو سو چونتیس، پختونخوا میں ایک سو پچاسی اور سندھ میں ایک سو پینسٹھ افراد کی موت واقع ہوچکی ہے۔ جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سینتیس اور گلگت بلتستان میں نو افراد کے جاں ہونے کے اطلاعات ہیں۔ کل مالاکنڈ ڈویژن میں سوات اور دیر کے مختلف علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچاٸی۔ کالام، بحرین، مدین اور دوسرے علاقوں میں سینکڑوں مکانات، مارکیٹس، دکانیں اور ہوٹلز سیلابی ریلوں میں بہہ گٸے۔ پاکستان اس وقت مون سون کے آٹھویں ساٸیکل سے گزر رہا ہے۔ جبکہ عمومی طور پر کوٸی ملک مون سون کے تین یا چار ساٸیکل سے گزرتا ہے۔ پاکستان غیر متوقع طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کے رحم و کرم پر ہے۔ جو کہ عالمی موسمیاتی تغیر کے اثرات سے جڑا ہوا ہے۔  محکمہ موسمیات کے مطابق ستمبر میں بھی ملک کو موجودہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ موجودہ سیلاب دو ہزار دس کے سیلاب سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔  بلوچستان حکومت نے ایک لاکھ ٹینٹس، ادویات اور اشیاء خوردو نوش کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ سندھ حکومت نے بھی دس لاکھ خیموں کا مطالبہ کیا ہے۔

رورل سندھ اور بلوچستان میں زندگی ختم ہوچکی ہے۔ گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ مال مویشی اور آبادی سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔ رابطہ سڑکیں، پل وغیرہ تباہ ہوگٸے ہیں۔ اس وقت پختونخوا کے چارسدہ اور نوشہرہ میں فلڈ ایمرجنسی قاٸم کردی گٸی ہے۔ کیونکہ دیر اور سوات سے سیلابی ریلہ دریاۓ سندھ اور خیالی میں داخل ہورہا ہے۔ تنگی اور شیر پاؤ کے نشیبی علاقے خالی کیے جارہے ہیں۔ پاکستان کو تباہ کن حالات کا سامنا ہے۔ اربوں کھربوں روپے کا انفرااسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ اس نقصان کا ازالہ آٸندہ دس سالوں میں ہونا بھی مشکل نظر آرہا ہے۔

اب آتے ہیں ریاستی بے حسی، حکمرانوں کے ترجیحات اور مذہبی کارڈ کی طرف۔ 2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کو مد نظر رکھ کر اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پیشگی اقدامات کیے جاتے۔ ڈیم بنانے پر توجہ دی جاتی۔ نشیبی علاقوں اور دریاؤں کے قریب آبادی کے لیے کوٸی منصوبہ بندی کی جاتی۔ اربن اور رورل پلاننگ کے تحت اقدامات کیے جاتے۔ وفاقی اور صوباٸی حکومتیں اپنے متعلقہ اداروں کو پیشگی چوکنا کرنے کے لیے اقدامات کرتے۔ اس سے پہلے ہم نے کورونا وبا کے دوران بھی ریاستی اور حکومتی نا اہلی کی حالت دیکھی تھی اور امداد ملنے کے بعد کرپشن ،غبن اور لوٹ مار کی کہانیاں بھی سنی تھیں۔

راقم کو بلوچستان اور سندھ کے بے یار و مددگار اور بے سر و سامان، بے آسرا لوگوں کا بہت رنج ہے۔ بے چارگی کی وہ انتہا ہے کہ دل اندر سے جل رہا ہے۔ بلوچ بچوں کی وہ لاشیں جو آنکھوں کے سامنے سے ہٹتی ہی نہیں۔ وہ بے سر و سامان بزرگ اور عورتیں جن کے بچے سیلابی ریلوں میں بہہ کر کہیں منوں مٹی کے اندر دفن ہوچکے ہیں۔ دل سے یہ بوجھ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا جب ایک بچہ سیلابی ریلے میں بہہ کر کہیں دور مٹی میں دفن ہوچکا تھا اور بس اس کے ہاتھ نظر آرہے تھے۔ سندھ کی وہ عورتیں اور بوڑھے جو اپنے مال مویشیوں کے ہمراہ  سیلاب میں پھنس گٸے تھے اور کسی بھی قسم کی مدد کی کوٸی امید نہیں تھی۔ اب بھی سندھ اور بلوچستان کے بے سر و سامان قافلے سروں پر اپنا بچا کچا سامان لیے کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں ہیں۔

 میں ریاست اور حکمرانوں کے متعلق جب بھی سوچتا ہوں تو ان سے گھن سی آتی ہے جب پختونخوا کے ضلع کوہستان میں پانچ بھاٸی سیلابی ریلے میں پھنس گٸے تھے اور ایک بڑے چٹان پر چھ گھنٹے تک حکومتی امداد کے منتظر تھے کہ پختونخوا حکومت کا ہیلی کاپٹر ان کو ریسکیو کرنے پہنچ جاٸے گا لیکن بارش کی وجہ سے سیلاب کا زور بڑھتا گیا اور آخرکار لوگوں کی چیخ و پکار اور آہ و فغاں کے باوجود حکومتی بے حسی کی وجہ سے یہ افراد سیلابی ریلے میں بہہ گٸے اور کوٸی کچھ نہ کرسکا۔ جبکہ پختونخوا کے وزراء اور وزیر اعلی کو عمران خان کے جلسوں میں شرکت سے فرصت نہیں ہے۔ کل جب پختونخوا حکومت کے ترجمان سے ایک ٹی وی ٹاک شو میں سوات کے سیلابی صورتحال پر سوال کیا گیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ سوات میں کوٸی بڑا واقعہ نہیں ہوا ہے۔ حالات ٹھیک ہیں اور میڈیا پر جو فوٹیج آرہی ہیں سب جھوٹ ہے۔

ادھر بلوچستان میں کوٸی پرسان حال نہیں۔ حکومت ،ادارے یا ذمہ داری کے احساس نامی کوٸی چیز نہیں۔ صرف بلوچستان کے وساٸل کو لوٹا جارہا ہے۔ سندھ میں زرداروں کی جاگیرداری قاٸم و داٸم ہے۔ کرپشن، مس مینجمنٹ اور اقرباء پروری کی انتہا ہے۔ سندھ کو اپنی جاگیر سمجھ رہے ہیں۔ پختونخوا ڈیرہ اسماعیل خان میں لوگ بے یار و مدد گار کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ جبکہ اتنی تباہی ہونے کے بعد اب وزیر اعلی کو ہوش آیا ہے۔ این ڈی ایم اے نامی ادارہ جو کہ نا اہلوں اور کرپٹ لوگوں کا ٹولہ ہے۔ جن کا کام یہ ہے کہ کوٸی بیرونی امداد آۓ تو اس پر ہاتھ صاف کیا جاۓ۔ اس سے ہماری ریاستی ترجیحات کا پتہ چلتا ہے۔ جب حکمران طبقہ اور اشرافیہ اقتدار کی جنگ میں مشغول ہے۔ عالمی سامراج کے غلام صرف اپنے آقاؤں کے سرمایے کو دوام دینے اور نچلے طبقے کے استحصال میں مصروف ہیں۔

طارق جمیل کی گڑگڑاہٹ، گناہگار نچلہ طبقہ اور عذاب الہی

پرسوں طارق جمیل نامی ایک شخص جو کہ سرمایہ دار طبقے اور حکمرانوں کا مذہبی گماشتہ ہے نے ٹی وی پر آکر سیلابی کی تباہ کاریوں کو عوام کے اعمال کا نتیجہ قرار دیا اور توبہ کرنے کی تاکید کی۔ یہ شخص نا کبھی انسانی حقوق کی پامالی پر بات کرتا ہے، نہ سرمایہ دار طبقے کی لوٹ مار پر بات کرتا ہے اور نہ ہی کبھی غریب کے لیے آواز اٹھاتا ہے۔ بس برسر اقتدار حکمران کی پروموشن اور سافٹ امیج کے لیے میڈیا پر دعاٸیں کرتا رہتا ہے جبکہ غریب کے ساتھ ہاتھ ملانے سے بھی گریز کرتا دکھائی دیتا ہے۔طارق جمیل اور اس جیسے دوسرے بنیاد پرست دراصل سرمایہ داروں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے مذہب کارڈ استعمال کرتے ہیں اور استحصالی قوتوں اور سرمایہ داروں پر پردہ ڈالنے کے لیے عام آدمی کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ آفات انسان کے برے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں اور یہ قسمت ہے، اس پر صبر کرنا چاہیے۔ کسی سے سوال کرنا یا اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا جرم ہے۔ اس میں سرمایہ داروں، حکمرانوں اور اشرافیہ کا کوٸی قصور نہیں، اپنے استحصال  پر چپ رہنے پر موت کے بعد اجر ملے گا۔ اس لیے سرمایہ داروں کی کرپشن، مس مینجمنٹ دراصل  آسمانی حکم ہے اور اس پر چپ رہنا چاہیے۔

 

لیکن ڈاکٹر لال خان اپنے ایک  آرٹیکل ”عذابوں سے گھرے سمندر میں دریاؤں کا سیلاب“ میں لکھتے ہیں  ”اس نظام ( سرمایہ دارانہ نظام ) میں قدرتی آفات بھی طبقاتی ہیں جو استحصال زدہ محروموں کو ہی نشانہ بناتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیلاب یا زلزلے قہر خداوندی ہیں لیکن یہ قہر پہلے سے عذابوں میں گھرے غریبوں پر ہی کیوں نازل ہوتا ہے؟ دنیا کا وہ کونسا گناہ، جرم اور ظلم ہے جو مراعات یافتہ طبقے کے محلات میں نہیں ہوتا؟ زلزلے یا سیلاب میں کتنے جاگیردار یا سرمایہ دار مرتے ہیں؟ کوئی بھی آفت قدرتی نہیں ہوتی نسل انسانی کی تاریخ ہی قدرتی آفات پر قابو پانے اور فطرت کو اپنے تابع کرنے سے عبارت ہے۔“

ہمارے بہت ہی قابل قدر دوست پروفیسر ڈاکٹر فضل سبحان کہتے ہیں کہ ‏سیلاب کوئی عذاب سے نہیں بلکہ ہمارے آبی مس مینجمینٹ کا منطقی نتیجہ ہے۔ گناہوں کی وجہ سے اگر عذاب ہوتا تو غریب کی جھونپڑیوں کی بجائے بنی گا لا، رائے ونڈ محل، لال حویلی، جی ایچ کیو، پاپا جونز، آسٹریلیا کا جزیرہ اور ڈی ایچ اے میں بھی سیلابی صورتحال ہوتی۔ یا اگر یہ کہیں کہ سندھ یا بلوچستان کے بچوں سے کون سا بڑا گناہ سرزد ہوا تھا کہ وہ بھی لقمہ اجل بن گٸے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ملک کے طول وعرض میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ بے چینی و بے یقینی کی صورتحال ہے۔ ملک جو پہلے ہی دہشت گردی، معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے دو چار تھا اب سیلاب نے اور بھی تباہ کردیا۔ جس کا نقصان فوری طور پر پورا کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ جبکہ حکمران اب بھی کوٸی خاص دلچسپی نہیں دکھا رہے۔ بلکہ آٸندہ انتخابات کے لیے اور دوبارہ سے اقتدار پر براجمان ہونے کے لیے اپنا الیکشن کمپین کررہے ہیں۔ حکمران طبقہ کے لیے ایسے آفات بڑے ہی منافع بخش ہوتے ہیں۔ اب بیرونی امداد آۓ گا اور پھر سے ان کی چاندی ہوجاۓ گی۔

آخر میں یہی کہوں گا کہ اس ریاستی بے حسی اور حکمران طبقے کے خلاف ایک مٹھی بن کر اپنے حقوق چھیننا ہونگے۔ ان استحصالی قوتوں کے غلاموں کا احتساب کرنا ھوگا۔ مراعات یافتہ اشرافیہ، عدلیہ اور بورژوا کلاس سے اختیارات چھیننے ہونگے۔ سرمایہ دارنہ نظام کے پاس مساٸل کا فوری اور مستقل حل نہیں۔ اس نظام کا زوال شروع ہوچکا ہے۔ بس نچلے طبقے کو ایک ہوکر جدوجہدکرنی ھوگی۔