اسرائیل کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے!
ارشدسلہری
ریاست جموں وکشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا جاتا ہے۔ مسئلہ جموں وکشمیر میں پاکستان براہ راست فریق ہے۔ پاکستانیوں کے کشمیریوں کے ساتھ خونی، مذہبی ،سیاسی و سماجی رشتے ہیں۔ لاکھوں کشمیری عوام پاکستان میں رہتے ہیں۔ کشمیری مہاجرین پاکستان سے حقیقی محبت کرتے ہیں اور پاکستان کو ہی اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ مہاجر کے بجائے پاکستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ کشمیری عوام کے دل دونوں جانب آر اور پار دھڑکتے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی کشمیریوں سے حقیقی رشتہ نبھا رہے ہیں۔
5اگست 2019 کو بھارت کی مرکزی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کردی۔ ریاستی آئین، ریاستی جھنڈا اور ریاست کی خصوصی حیثیت کے بجائے جموں وکشمیر کو بھارت کا وفاقی انتظامی حصہ قرار دے کر ہڑپ کرلیا۔ پاکستان کی حکومت اورعوام یہ سب دیکھتے ہی رہ گئے۔ کشمیر پر بھارتی قبضہ مستحکم ہونے پر پاکستان میں ہلکا پھلکا سااحتجاج کیا گیا تھا۔ مسئلہ کشمیر پر بھارت سے مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ امن عمل کی کوششیں بھی جاری رہی ہیں۔ بھارت کے اندر کشمیریوں کے کئی فورمز اور سیاسی جماعتیں ہیں جو مختلف طریقے سے مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہیں ۔ تنازعات کے حل کےلیئے پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلیٰ سطح پر کئی بار مذاکرات ہوئے ہیں۔
مسئلہ فلسطین میں ہم براہ راست فریق نہیں ہیں۔ قبلہ اول اور مذہبی رشتہ ضرور ہے۔ بطور مسلمان ہماری تمام تر ہمدردیاں فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ غزہ میں یہودی بستیوں کی تعمیر بھی فلسطینی عوام کے حقوق پر کھلا ڈاکہ اور اسرائیل کی بدمعاشی ہے۔ انسانی حقوق اور فلسطین کے حق خود اداریت کو پس و پست ڈال کر اسرائیل کے عمل کی حمایت نہیں کی جا سکتی ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کی اکثریت اسرائیل کے اقدام کی مذمت کرتی ہے۔ مگر اس بات پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ مذاکرات سے دو ریاستی حل تلاش کیا جائے۔ فلسطین کی آزادی، خود مختاری اور مظالم کے خاتمہ اور پائیدار حل کے لیئے ضروری ہے کہ ڈائیلاگ کیا جائے۔
پاکستان کے سیاسی حلقوں میں بھی دو ریاستی حل پر رائے پائی جاتی ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے پر بھی آمادگی موجود ہے مگر مذہبی حلقوں کے شدید ردعمل کا خوف ہے، جو انہیں اظہار سے روکتا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرناایک سیاسی معاملہ ہے۔ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم نفرتوں سے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے ہیں۔ نفرتوں کی تبلیغ سے ہم نےبہت کچھ کھویا ہے، آخری حل بات چیت ہی ہے۔
شدت پسندی، انتہا پسندی اور نفرت سے جذبات تو بھڑکائے جاسکتے ہیں مگر کسی بھی مسئلے کا پائیدار حل تلاش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ”دلی کے لال قلعہ پر جھنڈے گاڑنے“ اور ”اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے“ سمیت ”روس کو بکھرتے دیکھا ہے اور اب امریکہ ٹوٹتا دیکھیں گے“ جیسے نعروں کا وقت گزر چکا ہے۔ نفرتوں کی یہ دکانیں بند ہوچکی ہیں۔ نسل نو خوشحالی اور امن دیکھنا چاہتی ہے۔
مسائل کا حل برداشت، صبر ،حوصلہ ، حکمت عملی، بات چیت اور امن سے ہی ممکن ہے۔ اگر ہم نے بین الاقوامی برادری میں عزت و آبرو کے ساتھ شامل رہنا ہے تو پھر ہمیں اپنا امیج درست کرنا ہوگا۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہوگا کہ ہم امن پسند ہیں۔ دہشت گردی کے تانے بانے ہم سے نہ منسوب کیئے جائیں۔ پاکستان کی فیصلہ سازقوتوں کو غیرمقبول اقدام کرنا ہوں گے۔ قوت فیصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ خوش آئند امر ہے کہ نئے پاسپورٹ کے اجراء کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس پر اب یہ عبارت نہیں ہوگی کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سوا سب ممالک کے لیئے کار آمد ہے۔ متحدہ عرب امارات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا دورہ بھی مثبت پیش رفت ہے۔ پاکستان کے دوست ممالک میں ترکی، متحدہ عرب امارات، بحرین، مالدیپ، مراکش، سوڈان، آزربائیجان، وسط ایشیائی مسلم ممالک سمیت بوسینیا کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار ہیں۔ سلطنت عمان بھی عملی طور اسرائیل کو تسلیم کرچکی ہے۔ بس اعلان ہونا باقی ہے۔