اسلام میں عربی ہے یا عربی میں اسلام ہے؟
قاضی نوید اختر
محترم دوستو آج میں آپ کی توجہ ایک اہم موضوع کی جانب دلانا چاہتا ہوں۔ یہ موضوع شاید آپ میں سے بہت سے لوگوں کے لئے نیا نہیں ہوگا۔ لیکن چونکہ اس موضوع کا تعلق بھی اسلام سے ہے یعنی کہ مذہب سے ہے اس لئے اس پر بھی بات کرنے کے لئے ہمیں بہت احتیاط برتنی پڑتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس پر بات بہت کم ہوتی ہے۔
آج کا سوال یہ ہے کہ اسلام کو اپنانے کے لیے عربی زبان کی ضرورت کیوں ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ عربی زبان کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہوتا۔ ایسا کیوں ہے کہ عربی زبان اور اسلام دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔
آج میری کوشش ہو گی کہ ہم عربی زبان اور اسلام کے مابین جو ایک رشتہ موجود ہے اس کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیں۔
محترم بھائیو اور بہنو اسلام کا ظہور عرب معاشرے میں ہوا، اس لئے خدا نے عربی زبان کا استعمال کیا تا کہ یہ پیغام عربوں تک بہتر طریقے سے پہنچایا جا سکے۔ اور اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ اسلام کی تمام عبادات عربوں کے لئے عربی زبان میں متعین کر دی گئیں۔ چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تعلق عرب گھرانے سے تھا اس لئے وہ عربی زبان میں ہی اپنے رب سے مخاطب ہوا کرتے تھے۔ وہ عربی زبان میں ہی نماز پڑھتے تھے۔ عربی زبان میں ہی قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے ۔ عربی زبان میں ہیں حضرت جبرائیل امین سے بات کیا کرتے تھے۔ حتی کہ تمام عبادات میں عربی زبان کاہی استعمال کیا کرتے تھے۔
چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پیغام عرب لوگوں میں پھیل رہا تھا اس لئے عربی زبان میں ہی اسلام کی تمام ہدایات احسن طریقے سے عرب لوگوں تک پہنچ رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں اسلام بہت تیزی سے پھیلا۔
پھر یوں ہوا کہ آہستہ آہستہ اسلام دنیا کے مختلف خطوں میں پھیلنا شروع ہوا۔ یہاں پر اسلامی تاریخ میں ایک نیا موڑ آیا، اسلام نے عربوں سے باہر نکل کر باقی دنیا کی جانب سفر شروع کیا۔
اس سفر میں دلچسپ بات یہ تھی کہ اسلام کا پیغام پہنچانے والے تو عربی تھے لیکن سننے والے عجمی تھے۔
انہی میں سے ایک خطہ برصغیر پاک وہند بھی تھا۔ یہاں پر بھی مختلف ادوار میں اسلام کا پیغام پہنچایا جاتا رہا۔ یہ پیغام پہنچانے والے تو محمد بن قاسم کی شکل میں اپنی نیک نیتی بہادری اور حسن کردار کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو متاثر کرتے رہے اور نتیجتا لوگوں نے اسلام کے پیغام کو قبول کرنا شروع کردیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام کے پیغام کو تو قبول کرلیا گیا مگر اسلام کی جو تعلیمات لوگوں تک پہنچائی جا رہی تھی وہ تمام عربی زبان میں تھیں۔ اور یہاں کے لوگ عربی زبان سے مکمل طور پر نا واقف تھے۔ اس لئے معاشرہ مذہبی طور پر دو حصوں میں بٹ گیا۔
ایک چھوٹا سا حصہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے اسلام کے پیغام کو، نماز کو، قرآن کو، سنت رسول کو اپنی زبان میں ترجمہ کر کے سمجھا اور دوسروں کو سمجھایا۔
لیکن اسی معاشرے کا ایک بہت بڑا حصہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے اسی عربی زبان کو اسلام سمجھ کر اپنا لیا۔ ان لوگوں نے عربی زبان میں نماز، قرآن پاک، اور دیگر عبادات کو تو اپنا لیا، لیکن کبھی اس کو سمجھنے کی، کبھی اس کا ترجمہ کرنے کی، کبھی اس علم سے استفادہ حاصل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ کیوں کہ جاھل مولویوں اور کاہل ملاؤں نے ان لوگوں کو یہ بتا دیا تھا کہ جنت کے حصول کے لئے اس عربی کو پڑھ لینا ہی کافی ہے، اسکو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کو یہ سمجھا دیا گیا تھا کی مسجد میں عربی کو سن لینے کے بعد آمین کہہ دینے سے ہی نماز مکمل ہو جاتی ہے۔ اور قرآن پاک کی عربی میں تلاوت کر لینے سے ہی ثواب مل جاتا ہے اور جنت کے حصول کی منازل طے ہو جاتی ہیں۔
پھر اس سے ہوا یوں کہ مسجدوں مکتبوں اور گھروں میں عربی زبان کی گونج تو سنائی دینے لگی، لیکن جو پیغام یہ عربی زبان اپنے ساتھ لے کر آئی تھی، اس پیغام سے یہ لوگ بہت حد تک ناواقف رہے۔
یہی صورتحال نسل در نسل گھمبیر تر ہوتی چلی گئی جب اسی معاشرے کے ملاؤں نے اور مولویوں نے عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود اسلام کی مختلف تشریحات بناکر معاشرے کو تقسیم کرنا شروع کر دیا۔
اور اس طرح سال در سال کے سفر کے بعد اسلام کی مختلف اشکال نے مختلف قبیلوں کو اور مختلف فرقوں کو جنم دیا۔ اس معاشرتی تقسیم اور فرقہ پرستی سے جس طرح یہ معاشرے زوال پذیر ہوئے وہ تو آج ہم دیکھ ہی رہے ہیں، لیکن صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جس طرح ہمارے مذہبی پنڈتوں اور سیاسی استادوں نے فرقہ پرستی کی آڑ میں شدت پسندی کی جو آگ جلائی ہے اس نے ہمارے سارے خطے کو آج اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ آگ لگانے والے آج اس لیے کامیاب ہیں, کیونکہ ہم لوگ خود اسلام کے پیغام کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اس صورتحال کا حل کیا ہے؟
اس کا جواب جاننے کے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے، کہ آخر عربی ہی کیوں؟ ہماری عبادات عربی زبان کی محتاج کیوں ہیں۔ وہ خدا جس نے اس ساری کائنات کو پیدا کیا، اور جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، کیا وہ عبادات کے لئے کسی ایک زبان کا محتاج ہو سکتا ہے۔ کیا اگر اسلام کا نزول چائنہ میں ہوا ہوتا تو کیا ہم آج چائنیز زبان میں عبادت کر رہے ہوتے؟
اس مسئلہ کا ایک حل تو یہ ہے کہ اس معاشرے میں جسکی آدھی سے زیادہ آبادی پڑھی لکھی نہیں ہے، اسکو پہلے عربی زبان کی تعلیم دلوائی جائے تاکہ وہ خدا کے پیغام کو خود احسن طریقے سے سمجھ سکے۔ اور اپنے خدا سے سنت طریقے سے ہم کلام ہو سکے۔ جہاں یہ طریقہ بہت مؤثر اور کارآمد ہے وہیں انتہائی مشکل بھی ہے۔
دوسرا اور آسان حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ ہم اپنے رب سے اپنی لوکل زبانوں میں ہم کلام ہو کر بھی احسن طریقے سے اسلام کے فرائض سرانجام دے سکتے ہیں اور جنت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ جنت میں بسنے والی حوروں کے حصول کے لئے جو امتحان خدا نے مقرر کیا ہے وہ امتحان کسی بھی لوکل زبان میں دیا جاسکتا ہے۔ اس امتحان میں عربی پڑھنے کے کچھ اضافی نمبر تو شاید مل جائیں، لیکن اگر پرچہ ہم سمجھ ہی نہ پائے تو ان اضافی نمبروں کے باوجود اس امتحان میں کامیابی بہت مشکل ہو گی۔